| سنا ہے لوٹ کے وہ شخص آ رہا ہے پھر |
| غموں کی یعنی وہ سوغات لا رہا ہے پھر |
| کِواڑ برسوں تلک بند تھے صنم جس کے |
| درونِ دل کا وہ دروازہ وا ہوا ہے پھر |
| کیا ہے اس کو شمار آبرو خرابوں میں |
| یہ باندھی لوگوں نے بد ذات افترا ہے پھر |
| اڑا رہا ہے خبر تیری میری چاہت کی |
| نہیں ہے تو نہ میں یہ کوئی تیسرا ہے پھر |
| ہمیں گمان تھا اس کو بھلا چکے سِدْویؔ |
| تو سوگ شام پہ کس بات کا دھرا ہے پھر |
معلومات