سنا ہے لوٹ کے وہ شخص آ رہا ہے پھر
غموں کی یعنی وہ سوغات لا رہا ہے پھر
کِواڑ برسوں تلک بند تھے صنم جس کے
درونِ دل کا وہ دروازہ وا ہوا ہے پھر
کیا ہے اس کو شمار آبرو خرابوں میں
یہ باندھی لوگوں نے بد ذات افترا ہے پھر
اڑا رہا ہے خبر تیری میری چاہت کی
نہیں ہے تو نہ میں یہ کوئی تیسرا ہے پھر
ہمیں گمان تھا اس کو بھلا چکے سِدْویؔ
تو سوگ شام پہ کس بات کا دھرا ہے پھر

0
45