ہر اصطلاح سے جس کی غلط لغت نکلی
تمام لفظوں پہ اس کی ہی سلطنت نکلی
سمجھ رہا تھا جسے دوست دلربا اپنا
عدو کے ساتھ اسی کی مفاہمت نکلی
خوشی بھی رنج بھی تیرے ہی نام کے نکلے
وصال و ہجر میں کچھ تو مماثلت نکلی
یہاں اصول نصابی کبھی نہیں چلتے
کتابِ عشق کی بے جا لکھت پڑھت نکلی
اسی کو لوگ مسیحا سمجھ کے بیٹھے ہیں
درون جس کے نہ شفقت نہ معرفت نکلی
محبتوں کی ہمیں جس سے پھل کی آس رہی
اسی شجر کی جڑوں سے منافرت نکلی
وہیں پہ بونے چلے سِدْویؔ بیج الفت کے
جہاں سے شہرِ فتن میں مزاحمت نکلی

0
61