کیسی انا تھی طیش دکھانے سے ڈر گیا
وہ آدمی تو ملنے ملانے سے ڈر گیا
للکار میں وہ رعب تھا تن کانپنے لگا
دشمن بھی مجھ پہ تیر چلانے سے ڈر گیا
ٹھوکر لگے تو لگتی رہے کس کو فکر ہے
رستے کے پتھروں کو ہٹانے سے ڈر گیا
جس پر تجھے غرور تھا وہ عشق کیا ہوا
تو کیوں ستم ظریف زمانے سے ڈر گیا
محبوب میرے صبر مرا آزما کے دیکھ
ایسا بھی کیا تو مجھ کو ستانے سے ڈر گیا
روشن چراغ نے جو بھرا گھر جلا دیا
میں تیرگی میں دیپ جلانے سے ڈر گیا
سِدْویؔ تمام شہر میں کیسی ہوا چلی
ہر ایک شخص ہنسنے ہنسانے سے ڈر گیا

0
41