اگر ظلم پر آنکھ پرنم نہیں ہے
تو آدم ہے حیوان آدم نہیں ہے
غمِ عشق ہے تو عبث غم نہیں ہے
زمانے کا غم بھی مگر کم نہیں ہے
تمہاری توقع سے آگے کہیں ہیں
نہ ہم سے الجھنا اگر دم نہیں ہے
ہمارے چمن میں فقط خار ہی ہیں
یہاں ہوتی بارش کی چھم چھم نہیں ہے
تبسم ، عنایت ، شرارت ، اشارت
تری آنکھوں میں پیار تاہم نہیں ہے
تمہی کو مبارک زمانے کے اصنام
خدا کے سوا سر کہیں خم نہیں ہے
قضا تک لڑیں گے لہو گرم رکھنا
ابھی مات کا سِدْویؔ موسم نہیں ہے

0
110