معاملات کو سنگین کر نہیں سکتے
کبھی وہ عشق کی توہین کر نہیں سکتے
یہ سچ ہے دوستوں پر جاں نثار کرتے ہیں
مگر اک ایک کو دو تین کر نہیں سکتے
جفا گروں میں ہمارا بھی نام آتا ہے
وفا کی آپ کو تلقین کر نہیں سکتے
جزیرہ دل کا جو ویران کر دیا تم نے
مکین لا کے بھی تسکین کر نہیں سکتے
پلٹ دیں بازی کو سِدْویؔ نصیب کھیل نہیں
سیاہ بخت کو رنگین کر نہیں سکتے

0
37