| معاملات کو سنگین کر نہیں سکتے |
| کبھی وہ عشق کی توہین کر نہیں سکتے |
| یہ سچ ہے دوستوں پر جاں نثار کرتے ہیں |
| مگر اک ایک کو دو تین کر نہیں سکتے |
| جفا گروں میں ہمارا بھی نام آتا ہے |
| وفا کی آپ کو تلقین کر نہیں سکتے |
| جزیرہ دل کا جو ویران کر دیا تم نے |
| مکین لا کے بھی تسکین کر نہیں سکتے |
| پلٹ دیں بازی کو سِدْویؔ نصیب کھیل نہیں |
| سیاہ بخت کو رنگین کر نہیں سکتے |
معلومات