| چشم التفات کا التہاب رکھ دیا |
| تو نے میرے ہاتھ پر آفتاب رکھ دیا |
| اس غریب خانے میں دو گھڑی رکا مگر |
| بسترِ فراق پر اک گلاب رکھ دیا |
| چشمِ نیم خواب میں سپنے سو سجا دئے |
| کیوں کسی کی آنکھ میں اضطراب رکھ دیا |
| عشق عشق کھیلئے اپنے پا میں روندئے |
| ٹھوکروں میں آپ کی دل جناب رکھ دیا |
| ان رفاقتوں کی تاب سِدْویؔ کیسے لائیے |
| رتجگوں نے رات کے سر عذاب رکھ دیا |
معلومات