چشم التفات کا التہاب رکھ دیا
تو نے میرے ہاتھ پر آفتاب رکھ دیا
اس غریب خانے میں دو گھڑی رکا مگر
بسترِ فراق پر اک گلاب رکھ دیا
چشمِ نیم خواب میں سپنے سو سجا دئے
کیوں کسی کی آنکھ میں اضطراب رکھ دیا
عشق عشق کھیلئے اپنے پا میں روندئے
ٹھوکروں میں آپ کی دل جناب رکھ دیا
ان رفاقتوں کی تاب سِدْویؔ کیسے لائیے
رتجگوں نے رات کے سر عذاب رکھ دیا

0
54