ہجر کی شام اور قہری چپ ہے
دل پہ مسلط گہری چپ ہے
اس کی آنکھیں بول رہی ہیں
بزمِ سخن میں ٹھہری چپ ہے
سب منہ موڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں
جانے کیسی زہری چپ ہے
میرِ چمن سن بستی بستی
نوحہ گر تری بہری چپ ہے
بھوکا پیاسا بھٹکے مسافر
صحرا، ریت، سنہری چپ ہے
دیواروں سے کان لگے ہیں
دوسری جانب گہری چپ ہے
رات کے گہرے سناٹے میں
شور مچاتی اکہری چپ ہے
مفلسو کوئی رستہ ڈھونڈو
گھات لگائے دہری چپ ہے
کیسی خوش حالی ہے سِدْویؔ
حدِّ نظر تک شہری چپ ہے

0
50