چھیڑی گئی ہے پھر غزل آداب عرض ہے |
دل ہے جوان آج کل آداب عرض ہے |
اک پل بھی دینے کے لیے صد بار شکریہ |
ملتا ہے دل کو ایک پل آداب عرض ہے |
پھر ہم نے اس کو ایسے مکرر غزل سنائی |
پھر داد مل گئی ڈبل آداب عرض ہے |
بول تری منزل ہے کیا |
رین بسیرا دل ہے کیا |
ٹھان لے ہمت کر لے تو |
مردِ خدا کو مشکل کیا |
تیری پیار بھری نظروں میں |
ثانی بھی قابل ہے کیا |
پہلا تجربہ ہے تو نہیں یہ تیری یاد میں رونے کا |
لمحہ لمحہ دیکھ چکا ہوں پلکیں بوجھل ہونے کا |
آبلہ پائی ثانی کو مجبور بہت کر دیتی ہے |
عشق میں ورنہ وقت کسے ہے پاؤں پسارے سونے کا |
اشکوں کی بوندوں کو تولو دھڑکن کی لے کو پرکھو |
دکھ کا اندازہ تو لگاؤ دکھ ہے دل کو کھونے کا |
کمزوروں کے مقتل میں کبھی رہ نہیں سکتا |
مظلوموں پہ یہ ظلم کبھی سہہ نہیں سکتا |
جذبات کے ساحل پہ خموشی کا ہے ڈیرہ |
اب ہوگا کیا آگے یہ کوئی کہہ نہیں سکتا |
قدرت نے زباں دی ہے تو بولوں گا ہمیشہ |
میں سیلیِ دوراں میں کبھی بہہ نہیں سکتا |
اب بھلا کون شہادت کی تمنا نہ کرے |
اپنی نظروں کے جو وہ سیف و سناں رکھتے ہیں |
ہم فقیروں کو جو سامانِ شہنشاہی ہیں |
آپ سے اہلِ کرم ویسا کہاں رکھتے ہیں |
آپ سے یادِ گزشتہ مری وابستہ ہیں |
آپ کے لطف و کرم گریہ کناں رکھتے ہیں |
اس صبر سے بھی بڑھ کر دولت نہیں تو کیا ہے |
دل چپ وہ حشرِ جلوہ دم بھر نہیں تو کیا ہے |
یہ حسنِ خود نما بھی حوروں سے کم ہو کیوں کر |
صورت تری پری کا پیکر نہیں تو کیا ہے |
میرے درونِ خانہ یہ حشر کیوں ہے برپا |
وہ بے وفا جگر کے اندر نہیں تو کیا ہے |
ہر چند کہ ناصح کے کٹیں کفر میں دن رات |
مؤمن مجھے کرنے میں وہ کیا کیا نہ کریں گے |
کچھ خوب نہیں کرتے وہ بدگوئیِ الفت |
ہم درد و محبت کبھی یکجا نہ کریں گے |
سنتے ہیں کہ ہم تجھ کو بہت بوجھ لگے ہیں |
ایسا ہے تو ہم تیری تمنا نہ کریں گے |