مغرب کی سیاست کا تماشا تو ذرا دیکھ
لاتے ہیں یہی صلح یہی بانٹتے تفنگ
کرتے ہیں یہی قتل یہی کرتے ہیں افسوس
قاتل کے یہی ساتھ ہیں مقتول کے بھی سنگ
دے کر یہ تجھے وسعتِ افلاک کے سپنے
تیرے ہی جہاں کو یہ کرے تجھ پہ بہت تنگ
مغرب کی شرابوں سے کرے دل کو ترے صاف
اور زمزمِ مشرق سے بٹھے دل پہ ترے زنگ
تسخیرِ جہاں کے تجھے سکھلا کے طریقے
تیرے ہی سلیقے سے تجھے کرتا ہے بے ڈھنگ
لے کر ترے سازوں سے یہ توحید کا نغمہ
الحاد کا سازوں میں ترے بھرتا رہا چنگ
حیران بھی ہوتی ہے قلندر کی فراست
دنیا میں نہیں باقی ہے مغرب سا کوئی شنگ
بازیچۂ اطفال ہے تو اس کی نظر میں
دے کر تجھے ہتھیار کرے تجھ سے ہی یہ جنگ
کر سکتا ہے دعویٰ کوئی اس دنیائے دوں میں
کم کعبہ و قبلہ سے ہے بت خانۂ افرنگ
اس نے دیے احکام کیے سب نے ہی سجدے
اک ایک اشارے پہ ہے تسلیم و رضا انگ
ہو حکمتِ لقمان کہ ہو درسِ سماوی
دے مات سبھی مہرے کو مغرب کا یہ نیرنگ
انگشت بدنداں ہوا ہر چال سے اس کی
اس کے سبھی حربوں سے ہوئی عقل مری دنگ
ہرچند اسے کہتا رہا تہذیب کا رنگ

0
7