دنیا جو بسائی ہے ترے سنگ زمیں پر
بکھرا ہے محبت کا نیا رنگ زمیں پر
سانسوں کی تری خوشبو ہواؤں میں ہے تحلیل
ہے قوس و قزح بن کے ترا انگ زمیں پر
مذہب کی لڑائی ہو کہ تہذیب کے جھگڑے
ہونے نہیں دینی ہے کوئی جنگ زمیں پر
پھر وسعتیں بڑھتی ہی چلی جائیں گی اسکی
دو پھول محبت کے کِھلا تنگ زمیں پر
پرواز کا مطلب مجھے اب آیا سمجھ میں
سنتا ہوں بلندی کا وہ آہنگ زمیں پر
ہر دل میں فسوں گر کا طلسماتی جہاں ہے
ہر شکل ہے آئینۂ نیرنگ زمیں پر
کیوں ٹیڑھی نگاہوں سے مجھے دیکھے زمانہ
میں حرفِ مکرّر ہوں نہ ہی زنگ زمیں پر

0
11