جن سے نماز عشق ادا کی نہیں گئی
یہ زندگی تو ان سے ذرا جی نہیں گئی
اس شہر کو سلیقے سے لوٹا گیا اے دوست
دل سے متاعِ مہر و وفا ہی نہیں گئی
کیا زندگی کی چاک گریبانیاں رہیں
پھر چاک دامنی ہی انھیں سی نہیں گئی
ساغر میں کچھ کمی ہے نہ مینا میں کوئی کھوٹ
تجھ سے مری شراب اگر پی نہیں گئی
ہرچند تم کو یاد نہیں کر سکے ذرا
لیکن تمہاری یاد بھلا دی نہیں گئی

0
14