| یہ لمبی داڑھی، عمامہ یہ جبہ و دستار |
| انہیں کو دین کا معیار توٗ سمجھتا ہے |
| ترا ضمیر پراگندۂ ریا ٹھہرا |
| کہاں تو میری کوئی گفتگو سمجھتا ہے |
| تو اپنی ذات سے غافل خدا سے بے گانہ |
| تو ایسے شغل کو بھی جستجو سمجھتا ہے |
| تو بھائی چارہ سکھاتا ہے اہلِ ایماں کو |
| مگر تو اس کو کب اپنا لہو سمجھتا ہے |
| مسلماں بھائی کی عزت کو کرتا ہے نیلام |
| تو اس کو اپنی مگر آبرو سمجھتا ہے |
| یہ شمعِ کشتہ تو خورشیدِ تاب ناک نہیں |
| شکستہ شیشے کو جام و سبو سمجھتا ہے |
معلومات