| اپنی غزلیں اسے سناتا ہوں |
| کوئی مشکل نہیں بتاتا ہوں |
| ایک تصویر دیکھنے کے لیے |
| اپنے اندر سے لوٹ آتا ہوں |
| خود کو فارغ ترے لیے کر کے |
| اپنے سب کام بھول جاتا ہوں |
| پیش کرتا ہوں میں صفائی تری |
| اور اپنی ہنسی اڑاتا ہوں |
| رات بھر دیکھتا ہوں خواب پہ خواب |
| اور دن بھر انہیں سجاتا ہوں |
| ترے نزدیک اس کی قیمت کیا |
| جو متاعِ گراں لٹاتا ہوں |
| کوئی صورت نہیں بجز اس کے |
| حالتِ دل پہ کھلکھلاتا ہوں |
| کوئی دم ساز کب ملا مجھ کو |
| اپنی پیٹھ آپ تھپتپاتا ہوں |
| لائقِ اعتماد کوئی نہیں |
| میں وہاں اپنے ساتھ جاتا ہوں |
| مجھ سے رہتا ہے بے نیاز شجر |
| شاخِ نازک ہوں، ٹوٹ جاتا ہوں |
معلومات