| خیالوں میں یہ منظر چل رہا ہے |
| افق سے کوئی سورج ڈھل رہا ہے |
| لبوں پر خامشی، آنکھوں میں آنسو |
| تری یادوں کا سورج ڈھل رہا ہے |
| صدائیں گونجتی ہیں خامشی میں |
| کوئی دل لحظہ لحظہ جل رہا ہے |
| تعفن سے بھری لاشیں ہیں اس میں |
| مقدس پھر بھی گنگا جل رہا ہے |
| ذلیل و خوار تو ہے چاپلوسی |
| شجر محنت کا اب بھی پھل رہا ہے |
| اندھیرے جھوٹ کے غالب ہیں ہر سو |
| مگر سچ کا دیا بھی جل رہا ہے |
| پرندے جال سے آزاد ہیں اب |
| شکاری ہاتھ اپنا مل رہا ہے |
| کیا اپنے چاہنے والے کو دیکھا |
| بڑی ہشیاری سے پاگل رہا ہے |
| خبر تھی حال و مستقبل کی کس کو |
| نظر میں جانے والا پل رہا ہے |
| اگرچہ دل بڑے آرام سے ہے |
| بدن کا گوشہ گوشہ جل رہا ہے |
| اسی درجہ پریشانی ہے دل کو |
| جس آسانی سے وعدہ ٹل رہا ہے |
| قیاس آرائی پہلے دن پہ کیجیے |
| کسے معلوم اب کیا چل رہا ہے |
| اجل کی سازشوں کے درمیاں بھی |
| چراغِ زندگانی جل رہا ہے |
معلومات