| یہ رمز تو نہیں تقریب رونمائی کا |
| گلوں کی خوشبو سرِ شانۂ صبا اب بھی |
| خدا کو بھولا میں پتھر کے اک صنم کے لیے |
| وگرنہ ساتھ مرے ہے مرا خدا اب بھی |
| ہے رسم و راہ اندھیروں سے ان اجالوں کی |
| چمن سے آشنا کچھ کچھ تو ہے صبا اب بھی |
| بنانے لگتا ہے خوابوں کے کتنے شیش محل |
| کسی کا عکس لیے دل کا آئینہ اب بھی |
| میں اپنی زندگی بے کار ہی گزارتا ہوں |
| وجہ ہے جینے کی اک شخص بے وجہ اب بھی |
| جھکی نگاہوں سے خاموش لب سے کیا سمجھے؟ |
| تو پھر سمجھ لو یہی دل کی ہے صدا اب بھی |
| اسی بہانے سے خود کو تباہ ہونے دے |
| اسی جگہ پہ لٹا دل کا قافلہ اب بھی |
| نصیب میں ہو اگر گمرہی تو کیا کیجے |
| قریب کرتا ہے منزل سے راستہ اب بھی |
| مدام رکھتے ہیں اس دل کو مضطرب کتنا |
| وہی تڑپ وہی سینے کا ولولہ اب بھی |
| ہمیشہ کام لیا عشق کے اجالوں سے |
| بھٹکتی عقل کا یہ دل ہے رہنما اب بھی |
| زمانے بھر میں بہاریں اس ایک گل سے ہیں بس |
| چراغِ راہِ ہدایت ہیں مصطفی اب بھی |
| ہمارے خون کی تاثیر تو کوئی دیکھے |
| کہ دستِ ناز پہ کھلتی تو ہے حنا اب بھی |
| زمانہ بھر تو وفا مجھ سے سیکھتا ہے مگر |
| ہے ایک شخص جو کہتا ہے بے وفا اب بھی |
| کسی کے عشق میں ہر روز لوگ مرتے ہیں |
| ہے بے وفائی کا الفت میں سلسلہ اب بھی |
معلومات