آہِ دل جب بھی معتبر نہ ہوئی
عرضِ غم کچھ بھی کارگر نہ ہوئی
وقتِ فرصت ہے، کر جو کرنا ہے
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
دلِ دانا کا ہوں سپاس گزار
تہمتِ عشق میرے سر نہ ہوئی
تیری خاطر میں چھوڑ دوں تہذیب
تجھ سے الفت تو اس قدر نہ ہوئی
سازشِ عقل سے ہو بے پروا
بے خودی یوں بھی بے خبر نہ ہوئی
ابھی پہلو کو چھوڑ کر مت جا
جانِ جاناں ابھی سحر نہ ہوئی

0
92