سر کاٹ کے رکھ دوں یا جگر چیر کے آگے |
دوں کیا کیا ثبوت حسن عناں گیر کے آگے |
آنکھیں ہیں تری ٹیڑھی کمانوں کی طرح تیز |
دل بن کے شکار آتا ہے خود تیر کے آگے |
بخشی ہے خدا نے گو تجھے عقل و لیکن |
تدبیر کہاں چلتی ہے تقدیر کے آگے |
چلتا ہی نہیں ہے خس و خاشاک کا کچھ زور |
اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے |
دستار بچانے میں کٹا لیتے ہیں یہ سر |
لیکن کبھی جھکتے نہیں شمشیر کے آگے |
معلوم نہیں ہوگا جنوں زادوں کا اب کیا |
دار و رسن و زنداں و زنجیر کے آگے |
معلومات