| جی چاہتا ہے حدِ ادب سے بڑھے چلیں |
| گستاخ ہو کے عرض کریں چارہ گر سے ہم |
| انجام ہوگا کیا ہمیں کچھ بھی نہیں پتا |
| پتھر ہی پھینکتے رہے شیشے کے گھر سے ہم |
| پر خار راستے ہیں تو دشوار مرحلے |
| لوٹیں گے اب کے کس طرح دل کے سفر سے ہم |
| اپنی خدائی کا کہیں اعلان کر نہ دیں |
| پھر خود کو دیکھ لیتے ہیں تیری نظر سے ہم |
| تابع کسی کے ہے ہی نہیں بوئے زلفِ یار |
| کیوں کر الجھ رہے ہیں نسیمِ سحر سے ہم |
| اک شوخ کے ستم پہ تو نکلی نہ آہ تک |
| شکوہ کناں ہوئے ہیں مگر چشمِ تر سے ہم |
| کیسے مرا ضمیر گوارہ کرے اسے؟ |
| کیا ایسی داستاں بھی لکھیں آبِ زر سے ہم |
| کس بے خبر سے پوچھتے ہیں اپنے دل کا حال |
| پھرتے ہیں کس دیار میں پھر بے خبر سے ہم |
| صد شکر ان بکھیڑوں سے آزادی تو ملی |
| نکلے تو حسن و عشق کے مد و جزر سے ہم |
معلومات