| ثانی جسے زمانہ مٹانے کے در پہ ہے |
| سادہ مزاج ہی نہیں شوریدہ سر بھی ہے |
| مجھ پر یہ بے وفائی کا الزام کس لیے |
| رنگین میرے خوں سے تری رہ گزر بھی ہے |
| مایوس تو نہیں ہے مری شمعِ زندگی |
| کیوں کہ شبِ سیہ میں نویدِ سحر بھی ہے |
| تیرا ہر ایک وعدہ پسِ بے وفائی ہے |
| تجھ سے کوئی امید تجھے دیکھ کر بھی ہے |
| رستہ طویل منزلِ مقصود بھی ہے دور |
| پھر زندگی ہماری ذرا مختصر بھی ہے |
| ملنے کی آرزو تو زیادہ نہیں رہی |
| پھر آپ سے بچھڑنے کا ثانی کو ڈر بھی ہے |
| ہرچند آپ اس کو سمجھتے ہیں کچھ نہیں |
| مت توڑیے کہ دل ہی کسی کا تو گھر بھی ہے |
معلومات