| کھلاتی ہے وہ گل گردِ سفر آہستہ آہستہ |
| بدلتی جا رہی ہے رہ گزر آہستہ آہستہ |
| بصیرت کی ہر اک دیدہ وری ہے پیچ و تابی میں |
| جدا ہو ہی گئی دل سے نظر آہستہ آہستہ |
| بڑے بے خوف تھا ہرچند پہلے کارواں دل کا |
| اِدھر کی تیز قدمی ہے، اُدھر آہستہ آہستہ |
| کھلاتی ہے وہ گل گردِ سفر آہستہ آہستہ |
| بدلتی جا رہی ہے رہ گزر آہستہ آہستہ |
| بصیرت کی ہر اک دیدہ وری ہے پیچ و تابی میں |
| جدا ہو ہی گئی دل سے نظر آہستہ آہستہ |
| بڑے بے خوف تھا ہرچند پہلے کارواں دل کا |
| اِدھر کی تیز قدمی ہے، اُدھر آہستہ آہستہ |
معلومات