معتکف اہلِ ایماں کی مانند
دل کے گوشے میں اک تمنا ہے
اشک دیتے ہیں کتنی بینائی
دردِ دل کتنا روح افزا ہے
تری صورت بتا رہی ہے مجھے
تو کسی کے لیے تڑپتا ہے
ہجر جو عشق کی روایت ہے
بے رخی حسن کا تقاضا ہے
کیا گلہ حسن کی اداؤں سے
لب پہ شکوہ تو التجا سا ہے
روبرو آتا ہے کوئی چہرہ
سامنے جیسے آئینہ سا ہے
بے وفا ہے ہمارا لختِ جگر
دل کا ہر درد اب دعا سا ہے
اتنی تیاری کر رہے ہیں آپ
کتنے دن اس جہاں میں رہنا ہے

0
10