| اے دل تجھے کوئی نہ اگر چاہے تو کیا ہو |
| پھر بھی تو اسی طرح سے مسکائے تو کیا ہو |
| میں اس کے ستم سے جو تجاہل کبھی برتوں |
| پھر میرے رویے پہ وہ جھنجلائے تو کیا ہو |
| ہم سے تو عداوت میں کمی کوئی نہیں کی |
| گر ٹوٹ کے مجھ پر ہی جو پیار آئے تو کیا ہو |
| میں راہ تو دیکھا ہی نہیں کرتا کسی کی |
| اب چھوڑنے والا ہی پلٹ آئے تو کیا ہو |
| ہم کوئی حجاب ان سے یوں رکھتے تو نہیں ہیں |
| پر پھر بھی تکلف کوئی در آئے تو کیا ہو |
| گرتی تو ہے ہر روز کوئی برقِ تجلّی |
| کچھ جلوہ نمائی سے بھی شرمائے تو کیا ہو |
| ہم ایسے کسی سائے میں سمٹے تو نہیں ہیں |
| اک بے وفا دامن سے لپٹ جائے تو کیا ہو |
| محفوظ نہیں دامنِ دل آج کسی طرح |
| برفیلی ہوا آگ ہی سلگائے تو کیا ہو |
| اس کشمکشِ غم سے نکلنا ہے تو کس طرح |
| تو بھول گیا جس کو وہ یاد آئے تو کیا ہو |
معلومات