آنکھوں میں مری اور کوئی خواب نہیں ہے |
دل تیری نظر سے بھی شفا یاب نہیں ہے |
سنبھالی گئی کیوں نہیں پھر تیری امانت |
دل اجنبی دھڑکن سے تو بے تاب نہیں ہے |
نومید نہیں دل تری بیزار نظر سے |
ہاں جنسِ وفا آج بھی نایاب نہیں ہے |
دیتے ہیں تسلی تو درخشندہ ستارے |
قسمت میں اگرچہ کوئی مہتاب نہیں ہے |
کہہ دیتا ہے بے خوف جو کرتا ہے یہ محسوس |
شاعر کے لیے کچھ ادب آداب نہیں ہے |
ساقی ترا منظور نظر تھا تو یہی دل |
کیوں تیرے کرم سے یہی سیراب نہیں ہے |
گمنام ہے جینا مجھے گمنام ہی مرنا |
سو میرے لیے اب لقب القاب نہیں ہے |
خوش ہوں کہ ترے لب پہ ابھی بھی ہیں بہاریں |
ہاں غنچۂ دل آج بھی شاداب نہیں ہے |
حاصل کہ کسی چیز سے محروم نہیں دل |
محرومی کہ ان آنکھوں میں غرقاب نہیں ہے |
اف یاد نہ آتا وہ لڑکپن کا زمانہ |
سب کچھ ہے مگر حلقۂ احباب نہیں ہے |
معلومات