یہ ساغر ہٹاؤ یہ مینا اٹھاؤ کہ ساقیٔ کوہ و دمن آ گیا ہے |
مسیحا کی اب ہے نہ کوئی ضرورت مسیحائے درد و حزن آ گیا ہے |
ہے تقریر کیسی مضامین کیسے کہ دھنتا ہے سر بے دل و بے جگر بھی |
فصاحت ہے ایسی کہ جامِ نما ہو معانی کا گنگ و جمن آ گیا ہے |
ہے تیری نظر کی یہ گرمیٔ پیہم کہ روشن ہوئے ہیں یہ کوہ و دمن بھی |
نہیں کوئی میداں جو خالی ہو تم سے سراپا سراپا اگن آ گیا ہے |
ہے بندۂ قدرت مگر حق نے بخشا ترے عشق سے تجھ کو ذوقِ خدائی |
کوئی بادشاہ ہو کرے ہے گدائی شناسائے چرخِ کہن آ گیا ہے |
ہیں اوصاف تیرے مصفیٰ مجلی کمالات ارفع ثریا سے بالا |
نبی کے شمائل ہیں سب تجھ کو حاصل تو کوئی نہیں انجمن آ گیا ہے |
یہ قرآں کی خدمت یہ انساں کی خدمت یہ دشت نوردی گریباں کی خدمت |
ہے دشت نوردی پہ حیران خلقت وہ ناموسِ دار و رسن آ گیا ہے |
یہ دنیا کی تعلیم وہ عقبیٰ کی تعلیم یہاں کا مسیحا وہاں کا مسیحا |
ہے چرخِ بریں کے بھی لب پر مسرت ترے عشق کا یہ دمن آ گیا ہے |
ترے ساز سے جو بھی نغمہ ہے نکلا وہ بنتا گیا ہے صورِ سرافیل |
ہے سوزِ جگر سے سبھی میں حرارت جگانے دلوں میں اگن آ گیا ہے |
غلامِ محمد وستانوی نے بہت کام کیے ہیں ملت کی خاطر |
ہیں اخلاص سے پر سراپا محبت کہو وقت کا کوہ کن آ گیا ہے |
معلومات