| کل شب جہاں پہ آپ نے اک بات روک دی |
| ہم نے وہیں پہ حشر تلک رات روک دی |
| جب تک کہ بات وصل کی تکمیل پا نہ لے |
| واپس کیا سبھی کو ملاقات روک دی |
| تم کو تمہارے حسن نے برباد کر دیا |
| ہم سے ہمارے عشق نے آفات روک دی |
| جب تک اتر نہ جائے گی سر سے قضا کا بوجھ |
| جب تک نہ ہو تلافی ما فات روک دی |
| ماں باپ کو خیال تھا اپنی انا کا آج |
| شہنائی توڑ تاڑ دی بارات روک دی |
| شاید کہ ایک شعر میں گستاخی ہو گئی |
| پھر یوں ہوا کہ اس نے مدارات روک دی |
| ہوں کیوں حسین کی طرح باغی گروہ میں |
| مجھ پر امیر شہر نے خیرات روک دی |
| شاید نہیں ملے گی کسی جرم کی سزا |
| اللّٰہ نے عمل کی مکافات روک دی |
| آزاد ہوگی اپنی زبان و قلم ذرا |
| اچھا ہوا کہ ساری مراعات روک دی |
| شاید ہمارے نام کی دھڑکن سنائی دی |
| سو اس نے اپنے رب سے مناجات روک دی |
معلومات