| کتنا الٹا ہے اثر چشمِ مسیحائی کا |
| تری آنکھیں مجھے بیمار بنا دیتی ہیں |
| ہم نہ پالیں گے وفاداری کا معصوم بھرم |
| یہ وفائیں ہی گنہ گار بنا دیتی ہیں |
| ایک صورت سے یہ بیزار تمنائیں مری |
| کئی شکلیں پسِ دیوار بنا دیتی ہیں |
| عشق میں ہیں جو بہت ساری فنا کی رسمیں |
| چشمِ قاتل کا طلب گار بنا دیتی ہیں |
معلومات