تنگی کا شکوہ مرے احباب فرمائیں تو کیوں |
کچھ کشادہ تو ہماری آستیں رکھی گئی |
حوصلوں کے آسماں کا کیا ہوا دیکھے کوئی |
مٹھی بھر تن کی زمیں زیرِ زمیں رکھی گئی |
آج بھی ملحوظ تھا رسمِ تقدس میں ادب |
میرے ہونٹوں پر سلیقے سے جبیں رکھی گئی |
کیا ہمارا عشق بھی پچھلے فسانے سے ہے پاک |
کلفتِ دار و رسن پھر کیوں نہیں رکھی گئی |
اس کو اس ویرانے میں رہنا نہیں تھا گو پسند |
یادوں کی الجھن مگر دل میں مکیں رکھی گئی |
چشمِ ساقی کی خلش دل میں تھی زندہ تا ہنوز |
اور ذمّے داری الفت کی یہیں رکھی گئی |
معلومات