دل ہے کچھ عشوہ و ادا کا قتیل |
میں بھی دیوانہ خود کو کرتا ہوں |
اپنی منزل تو کوئی ہے ہی نہیں |
جانے کس موڑ پر ٹھہرتا ہوں |
کیوں نہ مر کر ہی زندگی پا لوں |
زندہ رہنے میں روز مرتا ہوں |
عشق جیسے مجھے سمیٹتا ہے |
کتنے حصوں میں اب بکھرتا ہوں |
میں سراپا ہی جب ہوا الزام |
اپنا الزام تجھ پہ دھرتا ہوں |
مجھ کو کوئے حرم نہیں درکار |
کوچۂ دل میں جب ٹھہرتا ہوں |
حضرتِ عشق سے ہوں وابستہ |
آہیں بھرنے میں آہیں بھرتا ہوں |
تیرے دل کی تہوں میں جانے کو |
کتنی اونچائی سے اترتا ہوں |
اب زمانے کا شیشہ جھوٹا ہے |
اپنے آئینے میں سنورتا ہوں |
تیری بانہوں کی ایک منزل تک |
کن مراحل سے میں گزرتا ہوں |
معلومات