دل کس کے آستانے پہ تو سر نہادہ ہے
تیری خبر نہ لینے کا جس کا ارادہ ہے
ہرچند زندگی نہ ملے گی قصاص سے
شاید کہ ظلم میں ہی مرا استغاثہ ہے
چشم و لب کسی کے سکھاتے ہیں شاعری
میری غزل میں شخص وہی استعارہ ہے
اس سادگی پسند پہ آیا ہے میرا دل
ہرچند بود و باش نہ اس درجہ سادہ ہے
ماضی کے سائے یاد ہیں اس کو ابھی تلک
یعنی غبارِ دل ہی وفا کا اثاثہ ہے
بتلاؤں کیسے امتِ خیر الامم کا حال
شانے پہ زندہ قوم کے تہذیبی لاشہ ہے
میں بھی تو جانتا ہوں محبت کا فلسفہ
یہ عشق ہے کہ نفس و ہوس کا تماشا ہے
ہر بات صاف صاف بتانی پڑے گی کیا
تجھ کو نہیں پتہ ہے کیا دل کا تقاضا ہے

0
7