بازار حسن عشق کے ماحول میں رہے
یعنی تمام عمر اسی جھول میں رہے
خانہ بدوشی میں ہی کٹی ہے تمام عمر
ہم شہر میں بھی دشت کے ماحول میں رہے
ہم پر عیاں نہ اپنی حقیقت ہی ہو سکی
اور تم بھی غفلتوں کے کسی خول میں رہے
جینے کی میں بھی خوب اداکاریاں کروں
بالجبر خود کشی ہی مرے رول میں رہے
بے غیرتی کی بھیک سے اللّٰہ کی پناہ
خود داری کا جو سکہ ہو کشکول میں رہے
مجھ سا سیاہ کار بھی جنت میں جائے گا
پیاسے کی کوئی بوند مرے ڈول میں رہے
بے اعتناء سمجھتا رہا ہے ہمیں جہاں
پھر خاص چیز کی طرح انمول میں رہے
جب حوصلہ شکن رہیں حالات زندگی
حرفِ تسلّی کیوں نہ ترے بول میں رہے
ہم کو نہ کیجے مصر کے بازار میں فروخت
یوسف کی طرح ہم بھی کہاں مول میں رہے

0
11