| دل مرا، آپ کی نظر ہوگی |
| عقل بیچاری بے خبر ہوگی |
| ہجر کی شب دراز ہوتی ہے |
| ہم غریبوں کی کب سحر ہوگی |
| سب ہمیں بے ادب ہی کہتے ہیں |
| اب تو گستاخی جان کر ہوگی |
| ڈر رہا ہوں تمہیں بتانے سے |
| ایک حسرت جو عمر بھر ہوگی |
| موت کا جس طرح تعاقب ہے |
| زندگی اپنے دوش پر ہوگی |
| ہم سے دیوانے آ گئے جو دشت |
| پھر تو وحشت بھی اپنے گھر ہوگی |
| تم ہمارا وجود ہو جاؤ |
| زندگی اس طرح بسر ہوگی |
| کیا خبر تھی کہ مردہ دل ہیں سب |
| ہر صدا دل کی بے اثر ہوگی |
| ہم مخاطب ابھی عوام سے ہیں |
| عام تعبیر خاص کر ہوگی |
| اس کی آنکھیں بتائیں تو تکلیف |
| بے کلی سی وہی اِدھر ہوگی |
| ہے اُسے حق کہ خوب اترائے |
| زلف جس شانے پر دھری ہوگی |
| میری قدموں کی چاپ پڑتے ہی |
| گرد آمادۂ سفر ہوگی |
| مری دنیا ہے ماورا اس سے |
| تو گرفتارِ دشت و در ہوگی |
| ایک بے نام آرزو سے مجھے |
| آس تو ہے نہیں، مگر ہوگی |
| کچھ تو دیوار پر جلیں گے چراغ |
| کچھ تو ہموار رہ گزر ہوگی |
| لازمی تو نہیں وفا بھی ہو |
| دیکھنے میں تو خوب تر ہوگی |
| خود غرض لوگ مجھ کو چاہتے ہیں |
| کیا یہ چاہت بھی معتبر ہوگی؟ |
معلومات