کام لیتا رہا میں نالوں سے
بے غرض ہو کے حسن والوں سے
ہم سے بے ربط ہیں وہی جو لوگ
ربط رکھتے نہیں اُجالوں سے
اپنی غزلوں کے جو اساس رہے
ہم ہوئے تنگ انہی خیالوں سے
کیا ملا ہجر کو بیاں کرکے؟
خالی لوٹے ہیں ہم سوالوں سے
ساری دنیا میں بانٹ دی ہم نے
اک اُجالا کئی حوالوں سے
حسن والے ذرا دکھا جائیں
وسعتِ قلبی تنگ حالوں سے
ہم کہ ہیں آپ مجمعِ خوبی
ہم کو کیا دوسری مثالوں سے
ہر سفر زخم خوردگی کا ہے
ہے تو کانٹوں کا ربط چھالوں سے
مرے ایثار کا مذاق اڑے
رکھ الگ مجھ کو ان دلالوں سے
میں جواب عرض کر کے پوچھوں گا
اک سوال آپ کے سوالوں سے

0
5