تیرگی سے ڈرا رہے تھے لوگ
کر لی ایجاد روشنی ہم نے
دل سلگنے کے واسطے رکھی
اپنی آنکھوں کی ہر نمی ہم نے
ہم کو خانہ خراب ہونا تھا
رکھ دی زلفوں میں برہمی ہم نے
تجھ کو کھویا کہ خود کو کھویا ہے
کتنی محسوس کی کمی ہم نے
آپ خود کو نہ جانے کیا سمجھیں
خود کو سمجھا ہے آدمی ہم نے
اب فرشتہ ہماری جاں لے لے
روح اپنی تو روک لی ہم نے
تا ابد عشق کی شریعت میں
ناروا رکھی خود کشی ہم نے
زود افزودگی ابھی تک ہے
ناگہی سے کی آگہی ہم نے
اس نے بس ایک بار دیکھا تھا
پھر نہ دیکھا اسے کبھی ہم نے

0
1