نئی لو شمعِ دل میں آ رہی ہے
پیامِ صبحِ نَو پھر لا رہی ہے
تجھے مجھ سے تعلق ہی نہیں ہے
مگر تو عشق بھی فرما رہی ہے
امانت دار ہے بادِ بہاری
مرا ہر زخمِ دل لوٹا رہی ہے
سمجھ داروں پہ آتی ہے مصیبت
یہ ناسمجھی مجھے سمجھا رہی ہے
کسی کو یاد کرنا مسئلہ ہے
مجھے اب یادوں کی یاد آ رہی ہے
تری تکلیف ہے میری اذیت
تڑپ کر تو مجھے تڑپا رہی ہے
لبوں پر مسکراہٹ ہے عجب سی
کلی دل کی مگر مرجھا رہی ہے
مری دھڑکن سخن نے تیز کر دی
غزل سازِ وفا پر گا رہی ہے
نشے میں بھی تجھے پہچانتا ہوں
مئے وحدت سبو چھلکا رہی ہے
قدامت آشنا مذہب پہ پیہم
نئی تہذیب تو مسکا رہی ہے
وہی تہذیب جو عرصے سے اب تک
ہر اک انساں کو زندہ کھا رہی ہے

0
3