| رہے سادہ رنگیں زمانے میں ہم |
| الگ ٹھہرے ملنے ملانے میں ہم |
| انہیں پہلے فرصت سے کرتے تھے یاد |
| ہیں مصروف اب بھول جانے میں ہم |
| ہم اک دوسرے کے لیے تھے سکوں |
| ملے درد بن کر فسانے میں ہم |
| ہیں بے التفاتی کے مارے ہوئے |
| مصور کے تصویر خانے میں ہم |
| نگاہیں ابھی ہم تک آتی نہیں |
| یہاں رہتے ہیں غائبانے میں ہم |
| ہے زلفوں کا سایہ میسر ہمیں |
| نہ پلکوں کے ہی شامیانے میں ہم |
| ہم اہلِ جنوں کا یہی دشت ہے |
| رہیں گے اسی آشیانے میں ہم |
| انا سے ہی سمجھوتہ کر بیٹھے ہیں |
| رہ و رسمِ دنیا نبھانے میں ہم |
| دیا زندگی کا بجھا ہی نہ دیں |
| چراغِ تمنا جلانے میں ہم |
معلومات