| میں، ہے تو اور تو، ہوں میں شاید |
| یعنی تُو، یعنی خُو ہوں میں شاید |
| مجھ سے سیراب سب کو کرتا ہے |
| جام کش تو، سبو ہوں میں شاید |
| گونجتا ہوں خموش ہونٹوں پر |
| بے صدا گفتگو ہوں میں شاید |
| گمرہی میں ہوئی تو عمر دراز |
| طفلکِ جستجو ہوں میں شاید |
| خود سے بیزار اک فریبی ہوں |
| یا تری آرزو ہوں میں شاید |
| تجھ کو بھی بن مرے قرار نہیں |
| رگِ جاں تا گلو ہوں میں شاید |
| آپ دیتے ہیں جو مقام مجھے |
| آپ کی آبرو ہوں میں شاید |
| چوٹ کھا کے ہوں مطمئن کتنا |
| درد سے سرخ رو ہوں میں شاید |
| عشق سر چڑھ کے بولتا ہے مرا |
| ہاں شرارِ لہو ہوں میں شاید |
معلومات