Circle Image

Nasir Ibrahim Dhamaskar

@Nasir.Dhamaskar

@nasir

بے حس ضمیر کا اپنے سماں بدل ڈالو
غبار دل کو ہٹا کے جہاں بدل ڈالو
سنوارو بخت یہ سود و زیاں بدل ڈالو
"نزول صبح ہے خواب گراں بدل ڈالو"
چمن کدہ سے یہ ابر سیاہ چھٹ جائیں
بہار رنگ و بو چھائے، خزاں بدل ڈالو

0
1
نور ہی نور ہے اور فیضان ہے
پیارے آقا ؐ پہ اترا جو قرآن ہے
بس گیا دل میں پختہ یہ ایقان ہے
"آپ ؐ ختم رسل ؐ میرا ایمان ہے"
آئے گا بعد ان ؐ کے نہ کوئی نبی
صاف کہتا یہی ہم سے فرقان ہے

0
4
حبیب ؐ کبریا کو ایک جھپکی سی آئی
انہیں خدا ﷻ سے خبر ایک فوری سی آئی
تھے جبرئیلؑ اٹے گرد میں جو سب سے آگے
ہزار نوری فرشتوں کی ٹولی سی آئی
لگام گھوڑے کی تھامے مدد کو آ رہے تھے
رسول ؐ جوش میں فرماتے آگے جا رہے تھے

0
7
آپ ؐ نے تضرع سے گریہ زاری فرمائی
کاوشیں خداﷻ کو منوانے ساری فرمائی
وعدۂ خداوندی کے لئے ہوئی تکرار
لب سے بس دعا ء نصرت ہی جاری فرمائی
تیز رو ہواؤں سے شعلہ جنگ کے بھڑکے
شاہ دو جہاں ؐ تب الحاح و عجز میں بیٹھے

0
6
غزوۂ بدر کا باقاعدہ آغاز ہوا
امن طرفین سے یک لخت ہی ناساز ہوا
شیبہ عتبہ جو قریشی تھے وہ آگے آئے
لڑنے انصاری ؓ مقابل ہوئے تو ناز ہوا
فخر سے کہنے لگے، ان سے نہیں لڑنا ہے
تم میں ہو کوئی قریشی اسے ہی آنا ہے

0
8
آتی ہے بس مدینہ سے خوشبو طہور کی
عنبر کی زعفران کی عود و بخور کی
برسات رحمتوں کی چلی ہے غفور کی
چادر تنی ہے گنبد خضری پہ نور کی"
ہر رسم مشرکانہ فنا ہو گئی یہاں
عالم میں خیر ہر سو ہے چھائی ظہور کی

0
6
حکم پاتے ہی چلے آقا ؐ مدینے کے لئے
رب کی طاعت میں وطن چھوڑا مدینے کے لئے
کفر کے سارے عزائم کا پتہ جب لگ گیا
ساتھی تب بوبکر کو پایا مدینے کے لئے
دیکھ پائے کچھ نہیں وہ دشمن دیں آپ ؐ کو
دھول جھونکی راستہ پکڑا مدینے کے لئے

0
3
شفیع المذنبیں ؐ کہيے، انہیں شمس الضحی ؐ کہیے
حبیب کبریا ؐ کہیے، انہیں روحی فدا ؐ کہیے
رسالت کے، نبوت کے امام لانبیا ؐ کہیے
"جب ان ؐ کا نام آئے مرحبا صل علی ؐ کہیے"
سر محفل بیاں کر دے جو کوئی سیرت آقا ؐ
تقاضائے عقیدت میں سبھی بدر الدجی ؐ کہیے

0
10
جو تھا بدخلق بنا معرکے کا وہ ایندھن
کہتا تھا حوض کا اس پانی پی لوں گا دشمن
بد چلن نام سے مخزومی کوئی اسود تھا
اپنی ہٹ دھرمی دکھانا یہی بس مقصد تھا
حوض کو ڈھا دوں گا یا اپنی یہ جاں دے دوں گا
عہد سے پیچھے کبھی مڑ کے نہیں دیکھوں گا

0
7
آمنے سامنے لشکر جو مقابل آئے
تب مخالف سبھی حق والوں کے باطل آئے
جنگی سامان کا ساروں پہ نشہ حاوی تھا
وہ تکبر لئے میدان میں غافل آئے
ہار شیطان پرستوں کے مقدر میں تھی
شان مومن جو عیاں ان کے تدبر میں تھی

0
6
دین اسلام کا وہ معرکہ پہلا ہی تھا
بدر میں وہ بے سرا قافلہ نکلا ہی تھا
تین سو تیرہ کی تعداد بہت کم تھی مگر
دیں پہ مر مٹنے کے جزبہ سے وہ آیا ہی تھا
گزری تھی رات صحابہ کی بڑی راحت میں
کفر کے خیمہ نے شب کاٹی مگر وحشت میں

0
7
گنبد خضری کی جو جالی ہے
دید ہو جائے آس پالی ہے
ذات سب میں تری نرالی ہے
"تو ہی آقا ؐ ہے تو ہی والی ؐ ہے"
جو ہے نور الہدی ؐ، شفیع امم ؐ
شان پائی بلند و عالی ہے

0
14
سحر ہے جاں فزا، پرضیا شام ہے
نعمتوں کی رسائی سر بام ہے
ہو گیا رب کا بندوں پہ انعام ہے
"فضل و برکت کا جم ماہ صیام ہے"
کر لیں آنکھوں کو اپنی ذرا اشکبار
مغفرت ہوچلی دیکھئے عام ہے

0
11
پیارے حضور ﷺ ہم کو بتا کر چلے گئے
جنت کی راہ سب کو دکھا کر چلے گئے
پستی سے رفعتوں پہ بٹھا کر چلے گئے
"سویا ہوا نصیب جگا کر چلے گئے"
ہرگز یتیمی میں نہیں چھوڑا ہے آپ ؐ نے
امت کو ہر طریقہ سکھا کر چلے گئے

0
6
نبی مرسلیں ؐ جیسا آیا نہیں ہے
رسولوں میں سردار ؐ دوجا نہیں ہے
شہ مصطفی ؐ سا جو اعلی نہیں ہے
"محمد ؐ سا دنیا میں دیکھا نہیں ہے"
شہ مجتبی ؐ کا نہ دل ہو یہ شیدائی
دلوں میں ہے دنیا پہ عقبی نہیں ہے

0
4
بات ہے سچ یہی ساروں کے دل کو لبھاتی امنگ
لازمی شامل زیست میں بھی ہو جاتی امنگ
خواب میں بھی تاثیر کو خوب ہے لاتی امنگ
سب کو دنیا میں پرعزم بناتی امنگ
آس نہیں چھوڑی تو کچھ بھی نہیں چھوڑا
سب آسان ہو من میں پنپ گر پاتی امنگ

0
9
مغفرت کا رحمتوں کا ہے مہینہ آگیا
ہے عبادت کے لئے موسم سہانا آگیا
نعمتیں سارے جہاں کی اس کو پانا آگیا
روٹھے رب کو گر سلیقے سے منانا آگیا
پا سکے گا وہ مقدر میں علوئے مرتبہ
دنیوی لذات کو اپنی دبانا آگیا

0
6
نفس کو اپنے گر فنا کرتے
رب کی حاصل جو ہم رضا کرتے
جزبہء دین میں جیا کرتے
"سجدۂ شوق یوں ادا کرتے"
امتحاں میں یہاں اترتے کھرے
تاج ان کے ہی سر سجا کرتے

0
5
مدحت ؐ کو اپنے ہونٹوں پہ جو بھی سجا گیا
وہ مشکبو کو ہر سو بکھرتا چلا گیا
ذکر نبی ؐ میں قلب تاثر دکھا گیا
"یاد ان ؐ کی آئی روضہ تصور میں آ گیا"
بوبکر ؓ دائیں ہیں تو عمر ؓ بائیں آپ ؐ کے
منظر حسیں مدینہ کا دل میں سما گیا

0
7
تیرے ہی نام کی سارے چاہیں برکت اللہ
محتاج بن کے مانگیں تیری ہی رحمت اللہ
ہے لائق پرستش، ہے لائق اطاعت
ہم ایسی ذات کی کرتے ہیں عبادت اللہ
اول بھی تو ہے آخر بھی تو، ترا نہ ثانی
ہے بے مثال عالم میں تیری وحدت اللہ

0
7
دوسروں کے یہ سہارے نہیں اچھے لگتے
بے کسی کے بھی نظارے نہیں اچھے لگتے
موج سرکش کے یہ دھارے نہیں اچھے لگتے
"ہم کو دریا کے کنارے نہیں اچھے لگتے"
آب الفت سے بجھانی ہے یہ نفرت کی آگ
نفرتوں کے یہ شرارے نہیں اچھے لگتے

0
9
تشنگی دل کے ہماری اے خدا تو بجھا دے
گنبد خضری ؐ کی ہم کو تو زیارت کرا دے
خواب جو پالے ہیں تعبیر بھی مالک دلا دے
"زندگی میں ہمیں اک بار مدینہ دکھا دے"
چشم نم کرتے ہوئے حاضری روضہ کی مانگیں
عشق کے مارے ہوئے ساروں کو مولی دوا دے

0
7
برپا ہو لاکھ کوئی یہ طوفان سامنے
بن کے سبھی ڈٹیں گے جو چٹان سامنے
ہرگز نہ خواب اپنے فراموش ہو سکے
چاہے حسین آئے شبستان سامنے
حزن و ملال کچھ نہ رہ پاتے ہیں دل میں تب
رہتے ہیں جب یہ رنگ گلستان سامنے

0
6
غایت درجہ کی ہے عقیدت آقا ؐ سے
تن من میں چھائی ہے محبت آقا ؐ سے
رو رو کے مانگیں گے شفاعت آقا ؐ سے
"کہہ دیں گے سب، اشک ندامت آقا ؐ سے"
ہر دم ہی تبلیغ کا فرض نبھائیں گے
پائی جو صدقہ میں نیابت آقا ؐ سے

0
14
خیر البشر ؐ ہے، اور جو خیر الانام ؐ ہے
ان پر قرار پائی نبوت تمام ہے
ذکر نبی ؐ ہی باعث کیف دوام ہے
"باد صبا کے لب پہ درود وسلام ؐ ہے"
دنیا بھی چمکے اور سنور جائے آخرت
سرکار ؐ کا جو بن سکے ادنی غلام ہے

0
8
جیتنا ہے سدا کہا تھا نا
مت کبھی ہارنا کہا تھا نا
کچھ نہ کرنا دغا کہا تھا نا
وعدہ کرنا وفا کہا تھا نا
التجا درگزر کی لب پر ہو
گر ہو جائے خطا کہا تھا نا

0
11
بے سوچے اجنبی سے ہوئی دل لگی سی تھی
چنگاری دل میں ایک وفا کی دبی سی تھی
آنکھوں میں پیار، من میں عجب کھلبلی سی تھی
بے سمجھے برتی اس نے ہی پر بے رخی سی تھی
باتوں سے انبساط ٹپکتا چلا گیا
چہرے سے کیوں جھلکتی یہ افسردگی سی تھی

0
17
یہ پلکیں ہیں بچھائی ماہ رمضاں کی عقیدت میں
رہیں گے ہم سدا مشغول مولی کی عبادت میں
فنا کر دیں گے اپنے نفس کو رب کی اطاعت میں
لئے ہاتھوں میں ہم قر آن بیٹھیں گے تلاوت میں

0
9
یہ بدر الدجی ﷺ پر ہے ختم نبوت
یہ شمس الضحی ﷺ پر ہے ختم نبوت
نہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو
حبیب خدا ﷺ پر ہے ختم نبوت
بلند جاہ و منصب پہ فائز ہیں آقا ﷺ
شہ انبیاء ﷺ پر ہے ختم نبوت

0
12
مرادیں ساری بر آتی شب برات میں ہیں
دعائیں رنگ بھی لاتی شب برات میں ہیں
حیات و موت کے فیصلے اسی میں ہوں طے
خطائیں بخش دی جاتی شب برات میں ہیں
ناصؔر مجگانوی

0
7
شکوے لبوں پہ اپنے سجایا نہ کیجئے
رشتوں میں تلخیوں کو بڑھایا نہ کیجئے
حساس دل کسی کا دکھایا نہ کیجئے
"لفظوں کے تیر لوگو! چلایا نہ کیجئے
پانے کی جستجو سے ہی انساں ہو کامراں
بے جا ہو خواب دل میں بسایا نہ کیجئے

0
8
جو ہر کسی کو پیاری ہو، اردو ہے وہ زباں
من کے سبھوں کو بھائی ہو، اردو ہے وہ زباں
تفریق ذات پات کی جس نے بھلائی ہو
شیرینی گھول پائی ہو، اردو ہے وہ زباں

0
8
قوم و ملت کی بھلائی کے لئے جیتا ہو‌ں
اس کے خدمت کی تمنا ہی جی میں پالا ہوں
بے کسوں اور ضعیفوں کی مدد کرتا ہوں
نالہ گر کی بھی مدارات پہ میں مرتا ہوں
گندے ماحول میں انسان بہک سکتا ہے
جو بہک جائے اسے سیدھی رہ پر لاتا ہوں

0
12
زمانہ میں تجھ سا نہ کوئی حسیں ہے
ترا ہی تو چہرہ فقط دل نشیں ہے
جگر میں یہی درد و غم جاگزیں ہے
"سنائیں اسے کیسے سنتا نہیں ہے"
لیاقت اجاگر کريں اپنی پہلے
گڑھے سر پہ تب اپنے تاج و نگیں ہے

0
11
امیروں سے گلے ملنا، غریبوں کو مسل دینا
بری ہو جائے ثروت مند، بے بس کو کچل دینا
حمایت کذب کی کرنا، صداقت سے ہے بیزاری
جو بے جا ہے روش دنیا کی اب اس کو بدل دینا

0
8
بیتابیوں کے بڑھنے کو الفت ہی کہتے ہیں
ہو بے قرار دل تو محبت ہی کہتے ہیں
خوش بخت رہتے ہیں وہی پاتے وفا یہاں
سچا رفیق جو ملے، قسمت ہی کہتے ہیں

0
7
بساؤں گھر مدینہ جا کے میری اک تمنا ہے
بناؤں جائے مسکن میں وہاں عزم و ارادہ ہے
نہ آؤں میں پلٹ کر شہر بیضا سے یہ ہے چاہت
حقیقت میں یہی عشق محمد ﷺ کا تقاضہ ہے

0
12
چہرے پہ ہے ہنسی تو زمانے کے واسطے
پالے ہیں غم تو دل میں مٹانے کے واسطے
ملنا ہے خاص بات بتانے کے واسطے
"سینے کے داغ تم کو دکھانے کے واسطے"
کرتے ہیں اہتمام کبھی بزم کا یہاں
کچھ زخم روبرو یہ سجانے کے واسطے

0
11
درد دل آشنا جگر ہوتا
پھر گراں قدر وہ گہر ہوتا
رنج و راحت کو بانٹتے مل کر
"کوئی میرا بھی ہم سفر ہوتا"
یوم و شب ایک ہی لگن ہوتی
دیرپا رہ سکے اثر ہوتا

0
13
گھبرا کے امتحاں سے یہاں جو پلٹ گیا
وہ مقصد حیات سے ہی اپنے ہٹ گیا
موسم بدلتے رہتے ہیں، سوکھا کبھی تو مینھ
"برسات ختم ہو گئی دریا سمٹ گیا"
مدت سے بچھڑے یار کی گر دید ہو کہیں
دل کی مٹانے تشنگی پھر وہ چمٹ گیا

0
11
معراج کے سفر کا قرآں میں تذکرہ ہے
سردار انبیاء ﷺ کی تکریم انتہا ہے
فخر الرسول سا ہے دوجا کہیں نہ ہوگا
وہ دو جہاں کے والی محبوب ﷺ کبریا ہے

0
12
سنا ہے حامیوں کو اپنے جو رسوا نہیں کرتے
وقار و مرتبہ کو وہ کبھی کھویا نہیں کرتے
ہوا کرتے ہیں فطرت سے سلیم القلب جو بندے
گمان بد کو ہرگز ذہن میں پالا نہیں کرتے
جو نیکوکار ہوتے ہیں، غرض اوروں سے ان کو کیا
کسی کی رہ میں وہ اٹکاؤ یا روڑا نہیں کرتے

0
10
ہوتی ہے لوگوں کو لغو سی بات پہ حیرت، جانے دو
حضرت انساں کی رہتی ہے بس یہی فطرت جانے دو
ہے پر لطف سماں بھی اور ہیں پر آشوب فضائیں بھی
ہر سو ہنگام گل بھی، اور ملال بکثرت جانے دو
کیا او ستم راں بھول گئے تم، جو اسباب زوال رہیں
صد افسوس نہ روک سکے بھی اپنی بغاوت جانے دو

0
17
وعدۂ محبت کو جو یہاں نبھائیں گے
منزل وفا اپنی سامنے وہ پائیں گے
دل کے سارے زخموں کو سینے میں چھپائیں گے
"مشکلیں پڑیں گی جب اور مسکرائیں گے"
جستجوئے پیہم نے حوصلہ میں جاں بھر دی
اب قدم نہ میداں میں اپنے ڈگمگائیں گے

0
18
سرکار مدینہﷺ کی محبت میں فنا ہیں
سردار پیمبرﷺ کی مودت میں فنا ہیں
ہے پیار ہمیں آپﷺ سے بے ساختہ، بے لوث
بدرالدجیﷺ کی سارے عقیدت میں فنا ہیں

0
12
تمکیں ہے با وقار ہے یوم جمہوریہ
دلکش، حسیں بہار ہے یوم جمہوریہ
دستور نے عوام کو قوت نصیب کی
اعزاز و افتخار ہے یوم جمہوریہ
سر سبز، لہلہاتی بھی شاخیں شجر کی ہیں
مانند شاخسار ہے یوم جمہوریہ

0
17
شکستہ رہ کے سعی کی طرف نہیں دیکھا
ستم گری ہے کمی کی طرف نہیں دیکھا
تھکن اٹھائی غمی کی طرف نہیں دیکھا
"کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا"
کٹھن سفر میں رکھیں عزم پختہ گر دل میں
تپش، جلن، لو کسی کی طرف نہیں دیکھا

0
19
مریض عشق کی تو بس دوا محبت ہے
سکون قلب کی بھی انتہا محبت ہے
ہوئی ہے آپ ﷺ کی بعثت ہی باعث رحمت
"مرے حضور ﷺکی ہر اک ادا محبت ہے"
نہ خوف کھائیں کبھی ہم، نہ ڈگمگائیں قدم
کہ حق کی راہ میں جاں وارنا محبت ہے

0
14
ہر دم ہی میں رقم کروں مدحت حضورﷺ کی
الفاظ میں پرو دوں عقیدت حضورﷺ کی
سردار بھی، امام بھی، محبوب بھی ہیں آپﷺ
نبیوں میں سارے اعلی نبوت حضورﷺ کی
ہے صدقہ میں فریضۂ دعوت عطا ہوا
خیر الامم ہے لاڈلی امت حضورﷺ کی

0
12
بسی سینہ میں ہے عقیدت کی خوشبو
مچلتا ہے دل پا کے الفت کی خوشبو
سدا جاری ہے لب پہ نام محمد ﷺ
فضاؤں میں مہکی محبت کی خوشبو

0
11
بھلا پوچھے تو کوئی قوم و ملت کے سپوتوں سے
کہاں کھوئی حمیت جانے، غیرت کے سپوتوں سے
ندارد ہے، مودت بھی، مروت بھی، مسرت بھی
سبب آخر ہے کیا سمجھے اخوت کے سپوتوں سے
مصیبت میں ڈٹے رہنا ہی پایا ہے وراثت میں
نہ چھوٹے صبر کا دامن عقیدت کے سپوتوں سے

0
22
لائی ہے آس و ارماں، یکم جنوری
اس پہ ہیں سارے نازاں، یکم جنوری
پھیلی ہے جب مبارک کی ہر سو صدا
چہروں پر دوڑی مسکاں، یکم جنوری
غم کی تاریکیوں کو بھلایا ہے اب
شمع کر دی فروزاں، یکم جنوری

0
20
لائی ہے آس و ارماں، یکم جنوری
اس پہ ہیں سارے نازاں، یکم جنوری
پھیلی ہے جب مبارک کی ہر سو صدا
چہروں پر دوڑی مسکاں، یکم جنوری
غم کی تاریکیوں کو بھلایا ہے اب
شمع کر دی فروزاں، یکم جنوری

0
9
صحرا نشین تو دنیا سے فرار چاہے
دنیا پرست کیسے عشرت، قرار چاہے
ہو شوخیاں گلوں کی، ہو غنچوں کا تبسم
مشتاق دید تو گلشن میں بہار چاہے
چین و سکوں کی رغبت محبوب کو پکارے
چاہت کے آشیاں میں وہ کچھ قرار چاہے

0
17
ہو آمد نئے سال کی کچھ سہانی
ہو ساگر کے ساحل پہ محفل سجانی
کہ گونجے پٹاخے، ہو جشن چراغاں
چلو مل کے اپنائیں گے رت پرانی
نہ ماتھے پہ کوئی شکن ہو نہ الجھن
بھلا کے گلے رسم بھی ہے منانی

0
14
شرق و غرب نے منظر وہ حسین دیکھا ہے
آپﷺ کی مبارک آمد سے نور پھیلا ہے
عام ہو گئی جب یکتا پرستی کی دعوت
شرک و کفر کا پھر عالم سے زور ٹوٹا ہے
ہیں عرب عجم، اعلی ادنی سارے اک صف میں
اونچ نیچ کا بھی باقی نہ کوئی جھگڑا ہے

0
18
ہر چیز میں جھلکتی ہے قدرت خدا تری
ہر خیر و شر میں رہتی مشیت خدا تری
توفیق نیکیوں میں بھی رہتی ہے درمیاں
اعمال سے وسیع ہے رحمت خدا تری
ہے وحدہ بھی تو اور تو ہی لاشریک لہ
عالم میں بے نیاز ہے وحدت خدا تری

0
20
نہ کیوں ہوں شادماں آزاد ہیں ہم
نرالا ہے سماں آزاد ہیں ہم
غلامی کے چھٹیں بادل ہیں سارے
بنا اپنا جہاں آزاد ہیں ہم

0
30
الفت کا میں اپنے کبھی اظہار کروں گا
سوئے ہوئے جزبات کو بیدار کروں گا
تنہائی میسر ہو سکے فاش کروں راز
بے لوث وفا کا کہیں اقرار کروں گا
بھٹکے ہوئے راہی کے اگر بھیس میں مل جاؤ
موسم ہو حسیں رکنے کا اصرار کروں گا

0
44
رچی ہے خوشبو فضا میں گلاب آزادی
زباں پہ جاری ہے ہر سو خطاب آزادی
چڑھائیں گردنیں علما نے سولی پر اپنی
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتاب آزادی"
گواہ شاملی کی جنگ خونچکاں بنی ہے
لہو بہا کے ہوئے فیضیاب آزادی

0
52
پڑھ رہا ہوں سلام چاہت میں
در پہ کر لوں قیام چاہت میں
پیارے آقا ؐ پہ جان و دل ہے فدا
عشق کا پی لوں جام چاہت میں

0
28
گناہوں کے سبب عذاب ملتا ہے
بھلائی کا مگر ثواب ملتا ہے
نصیب اوج کا یہ باب ملتا ہے
"صنم کے ملنے سے گلاب ملتا ہے"
حشم خدم، نعم کرم کا ہو بھرم
بشر وہ پھر بہ آب و تاب ملتا ہے

43
بجلی ہو منقطع تو ہے، دشوار رابطہ
موسم میں ہو خرابی، ضرردار رابطہ
رسم معانقہ کو ادا کرنے ہو پہل
تہوار عید کا ہے، سزاوار رابطہ
سکھ میں ہزار ساتھی ملے، دکھ میں نا کوئی
کرتے ہیں جو غمی میں اثردار رابطہ

0
52
تقاضائے طبیعت زر کی خواہش میں مچل جائے
تعیش کی تپش زوری سے دل اپنا ابل جائے
نہ مغلوب گماں ہونا، نہ کاوش سے مکرنا ہے
"ہوائیں سر پھری تھم جائیں تو موسم بدل جائے"
ہے رغبت تو مقدر ہو درخشاں طفل مکتب کا
اگر جہد مسلسل کے یہاں سانچہ میں وہ ڈھل جائے

0
51
حکم خالق کا ہیں لائے مصطفی ؐ
جانفزا مژدہ سنائے مصطفی ؐ
دین برحق کا تعارف کر دیا
"راہ حق ہم کو دکھائے مصطفی ؐ"
جم گئی وحدانیت سینوں میں ہے
عزوجل سے ملائے مصطفی ؐ

0
32
قلب مضطر سے جو ارمان نکل آتے ہیں
زیست میں ویسے ہی فرحان نکل آتے ہیں
ابتلا میں تو نہ کمیاں رہیں تھیں کچھ لیکن
"ملک غم سے نئے فرمان نکل آتے ہیں"
بخت برگشتہ میں بیدار دلی پیدا ہو
ضوفشاں شمع شبستان نکل آتے ہیں

0
36
ابن حیدر ؓ پہ دل یہ شیدا ہے
عالی اس شان کا ہی جلوہ ہے
ظلمت رنج میں سکت پانے
"حوصلہ کربلا سے ملتا ہے"
ہے گماں سے پرے پرکھ لینا
بار اندوہ جو من پہ چھایا ہے

0
35
حزن و الم سے پھیلی ہر سو فضائے غم ہے
عشق حسین ؓ میں بھی جاری نوائے غم ہے
سبط نبی پہ وارے اہل و عیال اپنی
"احساس کربلا ہے، دل میں صدائے غم ہے"
اصغر ؓ کی اور اکبر ؓ کی ہم کو آتی يادیں
گریہ وزاری سے سب کرتے ادائے غم ہے

0
49
نمازوں کو اپنی نہ ہرگز قضا کر
عذاب الہی سے ہر وقت ڈرا کر
مٹا دے تو ہستی خدا کی رضا میں
عبادت، ریاضت میں خود کو فنا کر
ہے راہ ہدایت پہ چلنا ہمیشہ
سراسر ضلالت سے راہیں جدا کر

0
63
تیر یہ دل پہ چلایا ہے کس نے
جال میں پنچھی پھنسایا ہے کس نے
جس پہ شبہ تھا وہی تو ہے ہمدرد
"غیر کو سینے لگایا ہے کس نے"
منچلے شوخ یہ کیوں ہیں ارادے
خام خیالی اٹھایا ہے کس نے

0
33
عقیدت کا اظہار ہے نم نگاں سے
بپا شور ماتم کا ہے ہم نواں سے
اگر سینہ میں ابن حیدر ؓ کا ہے عشق
"کرو ذکر ان ؓ کا لرزتی زباں سے"
چہیتے ہیں ہم کو پسر مرتضی ؓ کے
فضا گونجی ساری آہ و فغاں سے

0
30
دونوں جہاں میں شہرہ چلیگا حسین ؓ کا
ڈنکا زمانہ بھر میں پٹیگا حسین ؓ کا
رسوائی تو یزید کے حصہ میں آگئی
تاحشر ذکر چلتا رہیگا حسین ؓ کا

0
31
ناز و فخر سے کہتے ہم حسین والے ہیں
کام حق سدا کرتے ہم حسین والے ہیں
ہاتھ باطلوں کے ہم ہاتھ میں نہیں دیں گے
راہ حق پہ ہی چلتے ہم حسین والے ہیں
مال و جاں نچھاور ہے دین مصطفی پر سب
دین کے لئے لڑتے ہم حسین والے ہیں

0
42
وفا میں روح باقی سادگی کے ساتھ رہے
ثبات عشق کی پاگیزگی کے ساتھ رہے
نہ ہو سکیں گے فراموش تاحیات کبھی
"وہ حادثے جو مری زندگی کے ساتھ رہے"
صریح حکم عدولی سے بے سکونی ہو
قرار و لطف مگر بندگی کے ساتھ رہے

0
31
اے عظمت و بزرگی کے مینار السلام
اے تابناک دین کے سالار السلام
جو تن تنہا یزیدیوں سے سینہ سپر ہوئے
اے ‌فاطمہ و علی کے جگردار السلام
کیا بھوک و پیاس، کیا لو تپش، سب ہی سہ گئے
اے کربلا میں بر سر پیکار السلام

0
34
سب کو پکارتا ہے وہ میدان کربلا
ہے حق شعاری کی بڑی پہچان کربلا
ہے خانوادۂ نبی ؐ کا رتبہ بے نظیر
تڑپائے عاشقوں کو یہ سوہان کربلا
شعلہ فگن ہے تذکرہ مردہ ضمیری میں
گر داستان کا رہے عنوان کربلا

0
37
محرم کا مہینہ خیر ہے لایا عزیزو
مبارک! سال نو اسلام کا آیا عزیزو
عزائم ہو نئے، دل میں ہو ماضی پر ندامت
کریں سب احترام و قدر فرمایا عزیزو
عبادت سے، تلاوت سے، بٹوریں نیکیوں کو
رواں اس ماہ میں ہے لطف کا دریا عزیزو

0
32
خواب اک مدتوں سے ہے پالا ہوا
اس کو پانے کا جزبہ ہے ابھرا ہوا
مسکراہٹ لبوں پر نہ دوڑے گی اب
"غم ہی غم ہے فضاؤں میں چھایا ہوا"
کیسی دلدوز یادیں وہ تڑپاتی ہیں
جاں گزا سانحہ سے ہے سہما ہوا

0
49
ہر کوئی اب سویرا چاہتا ہے
حسن چہرے پہ نکھرا چاہتا ہے
دام الفت کی منزلت ہے بہت
"دل لگی کو ستارا چاہتا ہے"
اس کو اونچی اڑان بھرنی ہے
چاند پر جو بسیرا چاہتا ہے

0
43
گھرانہ جن کا اعلی وہ، حسین ابن علی ہیں
ثنا خواں دست بستہ وہ، حسین ابن علی ہیں
نواسے ہیں نبی کے، لعل و گوہر فاطمہ کے
عظیم الشان رتبہ وہ، حسین ابن علی ہیں
سخاوت میں، سیادت میں نہ ان کا کوئی ثانی
کیا دکھ کا مداوا وہ، حسین ابن علی ہیں

0
37
میدان کار زار میں چٹان ہیں حسین
دہلا دے جو عدو کو وہ طوفان ہیں حسین
اہل شباب کے ہوں گے جنت میں جو امام
وہ معرفت کے مقتدا عرفان ہیں حسین
تن چھلنی، سر کٹا ہوا روشن دلیل چھوڑی
"دین نبی کے سچے نگہبان ہیں حسین"

0
45
جگر سوز ماحول بے حد گراں ہے
ستائے یہ رہ رہ کے ٹیس و فغاں ہے
تبسم سے جھیلیں ستم سارے ہم نے
"سفر زندگی کا مسلسل رواں ہے"
رقم ہوگی تاریخ کوئی یہاں گر
سنائے زمانہ وہ پھر داستاں ہے

0
29
عشق نبی میں راس ہے مستان وغیرہ
دنیا کو بھی کھونے کا نہ افغان وغیرہ
نذرانہ سلاموں کا ہے گل پوشی کی مانند
"کیوں بھائیں بھلا اب مجھےگل دان وغیرہ"
بس گنبد خضری کا ہو دیدار جو حاصل
بے معنی یہ پھر نعمت الوان وغیرہ

0
43
اعزاز، افتخار اداکاریوں میں ہے
غم خواری، میل جول رواداریوں میں ہے
آداب، جی حضوری یہ پہچاں ہے مختلف
فرمان، رعب داب جہاں داریوں میں ہے
بد طالعی خطاؤں کی سوغات بن گئی
پوشیدہ بدشگونی یہ بدکاریوں میں ہے

0
44
کیوں جگری یار اہل فغانی ہے ان دنوں
کچھ تو سبب ہو، طبع گرانی ہے ان دنوں
روداد چھڑ گئی ہے محبت کی ہر طرف
"سب کی زباں پہ میری کہانی ہے ان دنوں"
موسیقی، رقص و گیت کے بن محفلیں کہاں
سنگیت کی دھنوں پہ مغانی ہے ان دنوں

0
71
اپنے مالک سے مدینہ کی زیارت مانگوں
تازگی دل کو ملے ایسی حلاوت مانگوں
حاضری روضہ پہ ہو فضل سے اے مولا جب
سجدۂ شکر کو کرنے کی سعادت مانگوں
پیش نذرانہ درودوں کا ادب سے کر پاؤں
سر جھکائے کھڑے ہونے کی لیاقت مانگوں

0
42
مست کن فرد جو جیالے ہیں
دہر میں سب سے وہ نرالے ہیں
جان من تیرگی نہ رہ پائی
"ہم تری صبح کے اجالے ہیں"
سنوری تقدیر سے ہوا ثابت
حسن تدبیر کے حوالے ہیں

0
182
جو ملت سے اپنے وفادار ہوں گے
وہ ہر مسئلہ سے خبردار ہوں گے
بدن کو تھکائے، پسینہ بہائے
ہمہ وقت دھن میں گرفتار ہوں گے
فنا رہتے ہیں بہتری میں جو اکثر
سدا خیر کے ہی طلبگار ہوں گے

0
38
جو رہ گئے ہیں اب تک ارمان نا مکمل
گر پورے ہو نہ جائیں، پہچان نا مکمل
احساس جاگ جائے تو ہے بسا غنیمت
جب کہتے ہیں وہ عہد و پیمان نا مکمل
روزوں کے ساتھ جوڑیں خیرات اور ترویحہ
تسبیح نہ تلاوت، رمضان نا مکمل

0
38
بلا وجہ نہیں گھبرائیں گے زمان سے ہم
نہ خوف کھائیں گے پھر سیخ پا بیان سے ہم
سنہری یادیں لئے سوگئے تو سپنے میں
"اتر کے آئے ترے پاس آسمان سے ہم"
نیاز مند نہ رہ پائے غم یہ کھاتا ہے
جو چاہتے نہیں تھے کہہ گئے زبان سے ہم

0
51
نیک طینت کے جو سایہ میں جواں ہوتا ہے
اس کی پیشانی سے ایمان عیاں ہوتا ہے
غیر کے حزن پہ اظہار خوشی سے توبہ
جینا اس طرح مگر بار گراں ہوتا ہے
اپنے غم بھول کے ہونٹوں پہ ہنسی ہے لوٹی
"وہ تبسم جو حقیقت میں فغاں ہوتا ہے"

0
46
جام کیا یہ ساقی سجا گئے
تشنگی ہی من کی مٹا گئے
تکتی رہ گئی پیاسی نظریں بس
"جاتے جاتے وہ مسکرا گئے"
حال دل زباں پر نہ آسکا
کچھ اشاروں سے پر بتا گئے

0
34
ہو خواب اگر پختہ، بکھرنے کے نہیں ہیں
بھٹکائیں اسے لاکھ ،بھٹکنے کے نہیں ہیں
جب رونق محفل ہی اجڑ جانے لگی ہو
"ہم خود ہی مری جان سنورنے کے نہیں ہیں"
رکھتے ہیں جو پاکیزگی باطن میں بسائے
شیطاں کے وساوس سے، بہکنے کے نہیں ہیں

0
36
شہ دوجہاں کی ہے سیرت عزیز
شہ انبیا کی نبوت عزیز
خدا وحدہ، احمد مرسلین
ہے دین مبیں کی شریعت عزیز
مزہ آئے نام محمدکو رٹنے
درودں کی ہم کو فضیلت عزیز

0
35
زور گر ہو نظم کا نگراں معزز
زیرکی کا وصف ہے شایاں معزز
زین حاصل ہو ریاضت کرنے سے پھر
"زہد اور تقوی سے ہے انساں معزز"
زعم پر ثابت قدم رہنا ہے ان کو
زیب و زینت کے جو ہیں خواہاں معزز

0
34
عیش و عشرت کے ہو ساماں تو پھسل جاتے ہیں لوگ
ہلکی تحسین و ستائش سے چہل جاتے ہیں لوگ
زیب و زینت کا زمانہ پر خطر ہے دوستوں!
"دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ"
کرتے ہیں اعراض سارے کسمپرسی میں مگر
مال و دولت کے خزانے ہو، پگھل جاتے ہیں لوگ

0
39
غیض و غضب میں رنگ یہ سرخاب سا ہوا
مغموم چہرہ، دل بھی یہ درداب سا ہوا
سرشار انبساط میں وارفتہ کھو گیا
"جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا"
کچھ مسکراہٹوں کی یہ سوغات کیا ملی
زخم پنہاں کو جیسے یہ سیماب سا ہوا

0
33
دل جلے دلبر کے فغاں اور بھی ہے
زخم کہن، قلب تپاں اور بھی ہے
راہ سے بھٹکانے کی شاید کڑی ہو
"نقش پا کے دیکھے نشاں اور بھی ہے"
چاند ستاروں کی طرف اب ہیں قدم
پردہ کے اس پار جہاں اور بھی ہے

0
42
نظارہ روح پرور آپ سے ہے
سرور و کیف و انور آپ سے ہے
مہکتا ہے یہ من صل علی سے
سکون دل میسر آپ سے ہے"
ضیا ارض و سما پر چھائی ہر سو
مہ و انجم منور آپ سے ہے

0
28
اصلاح کے ہی بن گئے افکار، معترض
تردیدی زاویہ ہو تو اقدار، معترض
مشکل سے دیدہ ور ملے گا اس چمن میں پر
ہر دلعزیز ہے، وہی سالار معترض
انداز ہے زمانہ کا برعکس دوستو!
جس کا نہ کوئی والی ہے، نادار معترض

0
37
اہل فن ہے نہ پسر کیا کرتے
شکوہ کس سے ہو پدر کیا کرتے
ہو چکی تنگ زمیں ہے اپنی
"لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے"
جس پہ نظریں جمی تھیں مدت سے
پھیر لی اس نے نظر کیا کرتے

0
35
ہیں نمودار یہ آثار سبھی آہوں کے
شب کی تاریکی میں آنکھوں سے بہے اشکوں کے
وقت سے بڑھ کے نہیں مرہم نہ دیکھا ہو
"زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے"
کچھ توقف کے ارادے کی ہوئی حسرت کیوں؟
ہیں نشانات جہاں ابھرے تری قدموں کے

0
30
اذکار کا ثواب ملا مجھ کو
چین و سکوں کا باب ملا مجھ کو
اپنی خلوص کا صلہ ہے پایا
"جب بھی ملا جواب ملا مجھ کو"
اب ختم انتظار ہے طالب کا
مطلوبہ سا نصاب ملا مجھ کو

0
30
نبی ﷺ کے پیارے نواسے حسین زندہ ہیں
ہر ایک دل کے چہیتے حسین زندہ ہیں
جو کربلا میں جوانمردی سے رہیں لڑتے
یزیدی ڈر گئے جن سے ، حسین زندہ ہیں
شہید زندہ ہیں قرآن کی گواہی ہے
رواں رواں بھی پکارے حسین زندہ ہیں

0
40
لو مل گئی سند خوشنودی شتاب لئے
کہ آئے ہاتھ میں اپنے حسیں گلاب لئے
گھٹائیں جم کے فلک پر ہیں چھائیں خوب مگر
"گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لئے"
مہ تاباں کی طرح دل فریب ہو منظر
ہو نازنین کھڑی سامنے حجاب لئے

0
28
ہر حال ہم کو جینا ہے یاں بندگی کے ساتھ
ورنہ بے موت مرنا ہے شرمندگی کے ساتھ
دل کے قریب تھے جو وہی آج ہیں خفا
"ملنے کو ہم سے آئے مگر بے دلی کے ساتھ"
جو شکر کرتے ہیں وہ عنایت کو پاتے ہیں
جیسے یہ شاکرین نبھاتے کمی کے ساتھ

0
24
بے لوث محبت کو سدا یاد کریں گے
فرقت ہو یا قربت وہ وفا یاد کریں گے
مورت ہے شرافت کی، نفاست کی سراپا
شرمائے حیا خود، وہ حیا یاد کریں گے
ملت کے لئے وقف کیا جس نے دل و جاں
پیغام انہوں نے ہی دیا یاد کریں گے

0
37
رائگاں جا سکے معصوم کی فریاد نہیں
حامی ہو جس کا خدا ہوتا وہ برباد نہیں
مقصد زیست کا اتمام ادھورا ہے کہاں
"اب کسی بات کا طالب دل ناشاد نہیں"
موت سے خوف نہیں لاگے، مگر ہے حسرت
اخروی زندگی کا لے لیا کچھ زاد نہیں

0
33
پا سکیں پیار کا ہے کوئی دہانہ ہی سہی
لب پہ ہے عید مبارک کا ترانہ ہی سہی
ہجر کی بے کسی نے حال برا کر ہی دیا
"عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی"
منتظر غرق تصور میں ہو محبوب کے ہم
پھر چھڑے عشق و محبت کا فسانہ ہی سہی

0
36
ہو تکیہ گر تلاوت اور نفلوں پر
نہ آ سکتے ہیں فاقے پھر مکینوں پر
غبار دل کے باعث ہو گئے بے حس
"شکن پڑتی نہیں ان کی جبینوں پر"
ہنر اپنا عیاں ہو جائے گر سب پر
تبھی خم کھاسکے دنیا یہ قدموں پر

0
37
ہر برائی میں رہتی زحمت ہے
پڑتی اک دن چکانی قیمت ہے
کیوں تذبذب تمہارے ہے دل میں
"ہے محبت تو بس محبت ہے"
جس شئہ نے فریب میں ڈالا
فانی دنیا کی زيب و زینت ہے

0
37
فرض تب تک ادا نہیں ہوتا
جب تلک خود فنا نہیں ہوتا
عشق میں ہجر، زخم، رنج و الم
"یوں تو ہونے کو کیا نہیں ہوتا"
غیر کا غم سمجھ نہیں پاتا
دل میں گر دکھ سجا نہیں ہوتا

0
45
یا خدا مانگتا بیٹھا ہے
کر عطا مانگتا بیٹھا ہے
با وضو، با ادب، با طلب
"وہ دعا مانگتا بیٹھا ہے"
اس کو صحت دے اے میرے رب
جو شفا مانگتا بیٹھا ہے

0
33
تمام شکوے بھلانے کو عید آئی ہے
وفا کا عہد نبھانے کو عید آئی ہے
خزاں کی رت یہ بدلنے کو ہو چلی جیسے
"چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے"
سیاہ شب کی یہ تاریکیاں مٹیں گی اب
چراغ عشق جلانے کو عید آئی ہے

0
32
جواں سالی کا گزرا وہ زمانہ یاد آتا ہے
محبت کا وہ رومانی فسانہ یاد آتا ہے
ادب کے جزبے دل میں تب ابھرتے ہی چلے جائیں
رویہ جب بڑوں کا مشفقانہ یاد آتا ہے
خدا کی معرفت کامل جو حاصل کرتے ہیں بندے
مقولہ ان کا ہی بس عارفانہ یاد آتا ہے

0
32
نظریں ہوں با حجاب، مت دیکھا کر
نکلے ہیں بے نقاب مت دیکھا کر
کیوں خالی ہاتھ بھی سکندر کے تھے
"جگ فانی کے سراب مت دیکھا کر"
ناممکن کچھ نہیں دہر میں لیکن
لا حاصل جو ہیں خواب مت دیکھا کر

0
33
ستم ہے دکھ بھی ہمارے سمجھ نہیں پائے
عبث ہے شکوہ، بے چارے سمجھ نہیں پائے
سکون قلب خدا کو پکارنے میں ہے
اسے یہ مال کے مارے سمجھ نہیں پائے
ملال ہے بے رخی کے برتنے پر ان کے
نظر سے نکلے اشارے سمجھ نہیں پائے

0
26
بنا کاوش کے کچھ بدلا نہ جائے
گلستاں ہو حسیں سوچا نہ جائے
نگاہوں نے دی ہے الفت کی دستک
"محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے"
برتنا ہے رفاقت پہلے گہری
کسی کو سرسری پرکھا نہ جائے

0
36
ہارنا میداں میں ہرگز گوارا بھی نہیں
جیت کی خاطر پہ جزبہ ابھارا بھی نہیں
داستاں ایماں فروشی کی رکھ تو سامنے
باز آتے تخت و کرسی سے وزرا بھی نہیں
جس نے اخلاقی فریضہ کو ہی سمجھا نہ ہو
"وہ ہمارا بھی نہیں وہ تمہارا بھی نہیں"

0
35
بے رخی بے انتہا دیکھتے ہیں
بے وجہ ان کو خفا دیکھتے ہیں
جزبے پنپنے لگیں پیار کے تو
لطف و کرم جابجا دیکھتے ہیں
باہمی رنجش ابھر جائے اگر
دل میں خلش، پھر سدا دیکھتے ہیں

0
29
آنکھوں سے صادر یہ شرارت ہو گئی
آپ سے کیسی یہ محبت ہو گئی
ہلکی سی جنبش نے اثر دل پہ کیا
دیکھتے ہی دیکھتے الفت ہو گئی
شکریہ اقرارِ وفا کرتے چلے
کتنی ہمیں قلبی مسرت ہو گئی

51
مدینہ جائیں گے، دل کی مرادیں پائیں گے
جبیں کو خم کئے سجدے میں گڑ گڑائیں گے
وہ سبز جالیوں پر نظریں ہم جمائیں گے
درود، ذکرِ نبی لب پہ بھی سجائیں گے
ہو روضہؐ پر کبھی اپنی جو حاضری پھر کیا
جو تشنگی بسی دل میں ہے سب مٹائیں گے

41
متین، نرم یہ لہجہ دکھائی دیتا ہے
وفا شعار یہ شیوہ دکھائی دیتا ہے
شبیہ کش کی ہو کاری گری عیاں اس میں
"یہ آئینے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے"
رہے فنا وہ سدا ناتواں کی خدمت میں
غریبوں کا جو مسیحا دکھائی دیتا ہے

38
جو انقلاب کبھی رونما نہیں کرتے
وہ کارِ خیر کی ہی ابتدا نہیں کرتے
خسارہ میں گِھرے اکثر وہ لوگ رہتے ہیں
بڑوں کی مان کے جو بھی چلا نہیں کرتے
ادب، تمیز ضروری ہے زیست میں اپنے
"یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے"

38
صنم بے وفا وہ بنے بیٹھے ہیں
مجسم خطا وہ بنے بیٹھے ہیں
بظاہر نظر آتے ہیں کچھ مگر
"زمیں پر خدا وہ بنے بیٹھے ہیں"
نہ اقرار کرتے نہ انکار بھی
سراپا حیا وہ بنے بیٹھے ہیں

0
40
آزاد پسندوں کا جہاں اور ہی ہے
مخمور ہو تو کُوئے مغاں اور ہی ہے
نرگس کہیں چمپا کہیں گل لالہ کھِلے
گلشن کی فضا، حُسن و سماں اور ہی ہے
حق تلفی پنپنے کبھی دینگے نہیں گر
انصاف ہو قائم تو اماں اور ہی ہے

0
40
جنم دن پر ہم کو نذرانہ محبت کا ملا
کچھ تو جاناں سے ہمیں انعام فرحت کا ملا
خواہشِ دیرینہ اک دن اپنی پوری ہو سکی
شکر ہے پیغام آخر آج الفت کا ملا
انتظارِ یار میں بےچینی کا اظہار تھا
پھر سلامِ عشق جُھک جُھک کر عقیدت کا ملا

0
59
درد ملت کا ہمیں رکھنا سدا ہے محترم
عافِیت اندیشی میں رہنا فنا ہے محترم
انقلابی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں ضرور
نوجواں بھی ساتھ ہوں گر، تو مزا ہے محترم
امتحاں سے خوف کھانا بزدلی کا ہے نشاں
مشکلیں رہتی ہیں مہماں، کچھ پتا ہے محترم

0
46
اجڑے وہ آشیاں تک گیا ہوں
بیتی اک داستاں تک گیا ہوں
دل پہ جو رکھ کے پتھر کبھی میں
"پوچھتے ہو کہاں تک گیا ہوں"
شاملِ غم بنوں سوچ کر ہی
چھوڑنے کارواں تک گیا ہوں

40
گلستاں میں یہ عمدہ پھول کھلے
پُر حسیں نور دیدہ پھول کھلے
سحر انگیز رت بھی چھائی ہے
گریہ شبنم نمیدہ پھول کھلے
کیا مہک کن فضا گلوں سے ہوئی
کیسے دلکش غنودہ پھول کھلے

41
گر ملے سب سے با ادب کوئی
تب کہیں اعلٰی ہے نسب کوئی
ٹوکنا تھا درستگی کے لئے
"مجھ سے روٹھا ہے بے سبب کوئی"
زیست میں ہو سرور ایسا بھی
چھڑ گیا ساز پر طرب کوئی

0
30
وعدہ کب یار نے نبھایا ہے
ہم کو ہر بار ہی رلایا ہے
پنچھی پہچانتے ہیں خطرہ کو
"جال صیاد نے بچھایا ہے"
اُن سے اظہارِ عشق ہو تو گیا
شور پھر کیوں بے جا مچایا ہے

0
53
تصویر میں جیسے ترا چہرہ پایا
کچھ ہو بہو نزدیک سے ویسا پایا
بے آبروُ ہو کے جو پلٹ کے آئے
کوچہ پہ ترے سخت سا پہرہ پایا
ہر مات نے ہمت ہے بندھائی میری
امید نئی جاگی ہے جو رسوا پایا

0
33
نو رسیدہ شگوفے کِھلنے لگے
کُل چمن خوشبُو سے مہکنے لگے
نقشِ پا کے سراغ مٹنے لگے
"کارواں راستے بدلنے لگے"
باخبر حال سے بشر ہو گر
اُس کے دل کا جہاں چمکنے لگے

0
52
کاش امت کی جو بگڑی کو بناتے جاتے
کام دعوت کا بھی سینہ سے لگاتے جاتے
فکر کے حلقے محلوں میں سجاتے جاتے
گشت میں کوچے گلی خود کو تھکاتے جاتے
ديں کے ماحول کی برکت سے ہوا بدلاؤ ہے
"دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے"

0
51
مبارک جو آمد تھی سرکارؐ کی
خبر لے کے آئی تھی انوار کی
بلایا جو معراج میں رب نے تھا
عیاں ہو گئی شان ابرارؐ کی
مدینہ سے دوری ہے بے حد گراں
"گزر جائے رت جیسے گلزار کی"

0
44
آس اب کچھ نہیں تجھ کو پانے کے بعد
رنج بھی مٹ گئے تیرے آنے کے بعد
اک شرارہ جو بن جائے شعلہ کبھی
جزبوں میں بہتری ہو، جگانے کے بعد
کارنامہ غمِ ہجر نے کر دیا
"ایک مدت ہوئی مسکرانے کے بعد"

0
46
درس الفت کے جو ڈھونڈے تو فسانے سے ملے
لذتِ عشق مگر غم کو اٹھانے سے ملے
راہیں پُر خار ہیں، دامن کو بچائیں کیسے
"داغ دنیا نے دیے، زخم زمانے سے ملے"
جزبوں میں جوش ہے، پر جوڑ نہیں فکروں میں
سوچ تو ہے نئی، انداز پرانے سے ملے

0
53
مقصد بھی نہیں چھوڑا، منشا بھی نہیں بدلا
اوروں کی بھلائی کا جزبہ بھی نہیں بدلا
طوفان و حوادث میں بھی سینہ سپر تھے وہ
"کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا"
باتیں ہیں تکبر والی، چالیں اکڑ والی
حالات کے مارے ہیں، لہجہ بھی نہیں بدلا

0
45
ہچکولے کشتی کھا رہی اپنی بھنور میں ہے
بچنا بھی اپنا اس کے ہی اب مقتدر میں ہے
غمخواری ہے دلِ بے کراں میں بھری ہوئی
"سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے"
مہکی فضائیں، دلکش و رنگیں شگوفہ نو
پُر کیف، پُر بہار سماں وہ نظر میں ہے

0
51
سوئے ہُوئے جزبات کو بیدار کرو تو
الفت کا صنم سے کبھی اظہار کرو تو
کم ظرف کبھی سوچ کے بولا نہیں کرتے
دانائی، فراست بھری گفتار کرو تو
سیلِ انا ہر وقت تمہیں زیب کہاں دے
ملت کی بقا کے لئے ایثار کرو تو

0
44
رہِ طلب میں کبھی وہ مقام آ جائے
اتھاہ گہری لگن اپنی کام آ جائے
مریضِ عشق کو کچھ تو، پیام آ جائے
"خدا کرے کہ تمہارا سلام آ جائے"
فضائیں منچلی، آنکھیں بھی ہوں خمار زدہ
ہوائیں ٹھنڈی چلیں، اور شام آ جائے

0
46
گل کو ملی پاکیزگی تھی شبنم سے
مہکی تھی فضا ساری، حسیں موسم سے
گلشن سے کہا جھڑتے ہی گل نے ایسے
"اس بزم کی رونق تھی ہمارے دم سے"
تالاب کے پانی سے گماں مشکل ہے
موجوں کی روانی کو جانے قلزم سے

0
42
عالم پہ نور چھا گیا بعثت سے آپؐ کی
خالق سے رشتہ جڑ گیا رحمت سے آپؐ کی
توحید کی پکار نے یکسر بدل دیا
گمراہی ختم ہوئی عنایت سے آپؐ کی
قرآں کا گر ہے سامنے اسوہ ہمارے پھر
"منزل ملی ہے ہم کو تو سیرت سے آپؐ کی"

46
چہرہ حسیں پلٹ کے دِکھایا نہیں کبھی
"ایسا گیا کہ لوٹ کے آیا نہیں کبھی"
ہرجائی پن کی چالیں ہُوئیں آشکار جب
دوبارہ نظریں اپنی ملایا نہیں کبھی
تخریب کاری کی جڑیں مطلق مٹانے سے
ناپاک سازشوں کو رچایا نہیں کبھی

42
ہے جو اپنے قرار کا دشمن
ہے وہی اِس بہار کا دشمن
قابلِ اعتماد کوئی نہیں
"یار ہوتا ہے یار کا دشمن"
ہمنشیں کو ہی وہ سمجھتے ہیں
اجڑے باغ و دیار کا دشمن

39
کردار اب کسی کے ہیں ملتے کھرے کہاں
سارے ہی لوگ رہتے مگر ہیں برے کہاں
دنیا یہ مفت میں کسی کو پالتی نہیں
مزدوری کے بنا ملیں گے ٹھیکرے کہاں
بھائی بہن، نہ ماموں، نہ تایا، نہ پھوپا بھی
ماں باپ پُوچھتے رہیں گے، دوسرے کہا‌ں

40
لب پہ ہر وقت مولیٰ کی ثنا ہے
لطف مالک کا مجھ پہ جو ہوا ہے
کہکشاں اور تاروں کی یہ چمک
کیا فلک، کیا قمر یہ سب مہا ہے
ہے سزاوار تجھ کو کاری گری
کیا زمیں، کیا خلیج، کیا خلا ہے

0
38
دینداری کے سارے دعوے ہیں
پارسائی کے بس دکھاوے ہیں
شائبہ مکْر کا کہیں نہ ملے
"یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں"
ظاہری رنگ زہد و تقویٰ کا
دیکھنے والے محض اُلجھے ہیں

0
46
خاص رب کی عطا آج کی رات ہے
جس پہ ہے دل فدا آج کی رات ہے
بن گئے ہمسفر جبرَئل آپؐ کے
عرش بھی سج گیا آج کی رات ہے
تاجدارِ مدینہؐ ہوئے روبرو
ہم کلامِ خدا، آج کی رات ہے

0
62
پرانی سوچ کو گر تم بدل سکو تو چلو
جدید نسل کے کچھ سنگ مل سکو تو چلو
وجود کامنی، نازک مہین چہرہ ہے
"سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو"
ڈگر کٹھن ہے مقابل پڑی ہوئی اپنے
وفا کے کھیل میں دے اپنا دل سکو تو چلو

0
70
ناراض خدا ہوتا ہے دل کو دُکھانے سے
خوش ہوتا ہے وہ بچھڑے بندوں کو ملانے سے
تشنہ لبی کیسے مٹ جائے گی ہماری اب
"ویران ہوئی دنیا اک آپ کے جانے سے"
کرنا ہے تعاون اب حالات کے ماروں کو
دہلے ہیں ممالک جو بھی زلزلے آنے سے

0
40
شوق گر ہم کو ہوگا پڑھنے کا
راستہ مل ہی جائے پانے کا
سوختہ بخت کی پکار کو سن
"آسرا چھن گیا ہے جینے کا"
کیوں نہ آواز ہم اُٹھائیں اب
کیا نتیجہ ملا ہے سہنے کا

0
30
ملت کے نوجواں کو جگاتے تو بات تھی
اخلاقی ہم فریضہ نبھاتے تو بات تھی
سردار سے ہی کیسے بغاوت یہ ہوگئی
گر ذاتی اختلاف مٹاتے تو بات تھی
سیرابی دل کے اجڑے چمن کی نہ ہو سکی
"وہ تشنگئی شوق بجھاتے تو بات تھی"

0
47
محبی چھوڑ کر جانے لگے ہیں
ہمارا من ہی تڑپانے لگے ہیں
رفیقِ بزم ہی جب روٹھ جائیں
"دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں"
ہمارے درمیاں امجد تھے سب میں
وہ اب باغِ عدن چھانے لگے ہیں

0
43
سب کو تُو خدایا رکھنا اپنی پناہوں میں
گھیرے میں نہیں لینا، آفت یا عذابوں میں
عاصی ہیں، مگر تیرے محبوبؐ کی امت ہے
سرکارؐ کے صدقہ رکھنا ہم کو تُو نازوں میں
لرزہ دیا تھا جس نے، واں زلزلے ہیں برپا
ترکی کے مسلماں کو رکھنا تُو سہاروں میں

0
40
حسیں محفل کسی دن سجاتے ہیں
غزل اپنی تمہیں پھر سناتے ہیں
بلا کر تو کبھی دیکھنا ہم کو
کِیا وعدہ نبھا کے دِکھاتے ہیں
محبت ہو چلی رسمی ہے جب سے
"لگانے کو سبھی دل لگاتے ہیں"

0
53
چھا گیا تھا زمانہ جو رسالت کا
دور آتا گیا ہر سُو صداقت کا
اک اُبی نام کا کٹر منافق تھا
"جانے دیتا نہ تھا موقع شرارت کا"
کیا مہاجرؓ تھے کیا انصاریؓ سب تھے ایک
اخوہ قائم ہوا باہم اعانت کا

0
62
بے کسی کا کبھی اظہار نہ ہونے پائے
حالِ مجبوری میں اوتار نہ ہونے پائے
جاں سے بڑھکر بھی وفاداری نبھاتے جائیں
"یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے"
یوم و شب ایک ہی دُھن رکھنے سے منزل ملے گی
فکر جو پالی ہے بیکار نہ ہونے پائے

0
56
جھرنے ندی سے تو کبھی ساگر نہیں ملتا
سب بحروں میں کاہل سا سمندر نہیں ملتا
تقدیر کی گتھی کوئی سلجھا نہیں پایا
"دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا"
فطرت رہی ہے حضرتِ انساں کی ہمیشہ
تکرار ہو گر کوئی تفکر نہیں ملتا

0
38
ذرا بن ٹھن کے جو دلبر بھی آئے
حسیں زہرہ جبیں پیکر بھی آئے
ہوائے دید بن کے منتظر ہیں
"کوئی لمحہ دھنک بن کر بھی آئے"
جگر کو تھام کر بیٹھے ہیں سارے
جری، شعلہ بیاں، لیڈر بھی آئے

0
57
بہتے ہیں سدا دریا
رب کی ہے، عطا دریا
اُس نے برف پگھلایا
کوہ سے روا، دریا
موجوں میں ہو طغیانی
دیتے ہیں، صدا دریا

0
48
چہرہ خوش رنگ بنا کے رکھا ہے
زخم سینہ میں چُھپا کے رکھا ہے
گر عدو جان لے تو خیر ہی ہے
"جو کفن ہم نے سلا کے رکھا ہے"
ایک مدت سے رہیں جن کے قریب
اُس نے ہی آج بُھلا کے رکھا ہے

0
51
رہیں ہشیار بن کے ہم اگر چکما نہیں ملتا
نمایاں کارناموں کے بجز چُوما نہیں ملتا
بہ قدرِ ظرف ہی قیمت لگائی جاتی ہے اکثر
کشیدہ کاری ہو بدحال تو دمڑا نہیں ملتا
رفیع الشان کی پہچان اہلِ قدر ہی جانے
نظر کو بھا سکے نایاب وہ ہیرا نہیں ملتا

0
58
کبیرہ کچھ گناہوں کے سبب خَبال ہو گیا
عذاب کا سَروں پہ بے جا کچھ وَبال ہو گیا
غروب سلطنت پہ شمس جس کی ہو نہیں سکا
ابھرتی قومیت کا اس کی بھی زوال ہو گیا
رئیس بننے کے فراق میں حدیں پھلانگ دیں
کہ سود خوری کا بھی پیشہ اب حلال ہو گیا

0
40
دامن کو ٹھیک سے پسارو
رب سے فریاد کو سنوارو
جنت کی آرزو اگر ہے
اپنے اعمال کو سدھارو
لب پر ہو عاجزی تمہارے
"تم اہلِ دل کو جب پکارو"

0
44
عشقِ صادق کبھی فنا نہ ہوا
حق تو جاں دے کے بھی ادا نہ ہوا
لعن کے باوجود اف نہ کیا
یار ہم سے کبھی خفا نہ ہوا
غم کی آہٹ نے گھیرے میں لے لیا
"آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا"

0
49
کیوں ڈوبتے ہُوئے کو بچایا نہیں گیا
ہمدردی کے سبق کو نبھایا نہیں گیا
محوِ تماشہ بننے کی لت رہتی ہے بری
دکھ کی گھڑی میں دکھ بھی جتایا نہیں گیا
مطلب پرستی بڑھ چکی اب تو بے انتہا
"تشنہ لبی میں جام پلایا نہیں گیا"

0
45
شاید یہ جان بوجھ کے پہرے بدل دیئے
الزام کو مٹانے یہ دعوے بدل دیئے
موضوع زیرِ بحث تھا کچھ اور ہی مگر
"کس نے بساطِ بحث کے مہرے بدل دیئے"
آگاہ چالبازی سے جب لوگ ہو گئے
مکر و فریب کے لئے حیلے بدل ديئے

0
42
کب سے رہ پر مری پلکوں کو بچھا رکھا ہے
حسرتِ دید میں سینہ کو جلا رکھا ہے
ہوش اڑنے لگے ہیں تب سے مرے ہوش ربا
"جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے"
باخبر کیوں نہ صنم چاہنے والا بھی ہو
کس اداسی کے سبب حال گِرا رکھا ہے

0
45
جو آج تک نہ بتایا وہ اب بتا دوں گا
حیا کے پردے بھی ممکن ہو گر ہٹا دوں گا
فریب سے مری جاں احتیاط ہو ورنہ
"میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا"
خطا نہ ہو سکا کوئی نشانہ ہے اپنا
شکار پنجہ میں اپنے مگر دبا دوں گا

0
46
کب سے رہ پر مری پلکوں کو بچھا رکھا ہے
حسرتِ دید میں سینہ کو جلا رکھا ہے
ہوش اڑنے لگے ہیں تب سے مرے ہوش ربا
"جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے"
باخبر کیوں نہ صنم چاہنے والا بھی ہو
کس اداسی کے سبب حال گِرا رکھا ہے

0
55
کچھ نہیں ہوتا یہاں دینار سے
پائے گا سب رب کے ہی تذکار سے
گول ہے دنیا کا اس جغرافیہ
"بن گیا اک دائرہ پرکار سے"
ایک خالق کی محبت دل میں ہو
پاک رکھیو اپنے من اغیار سے

50
عجیب مخمصہ میں ہے کہ جیتنا بھی نہیں
پسند ان کو مگر آئے ہارنا بھی نہیں
قریب رہنے سے ڈسنے لگی یہ قربتیں ہیں
"اسی کو چاہنا اور اس سے بولنا بھی نہیں"
وفا کے کھیل میں حد درجہ غرق کوئی ہو پھر
سوائے عشق و محبت کے سوچنا بھی نہیں

29
نہ جانے عرصہ دراز سے یار تم بہت ہی خفا رہے ہو
بتاؤ کیوں ایسے سرگُزِشت و فسانہ اپنا سنا رہے ہو
زباں پہ ہیں بول میٹھے، کرتوت بر مخالف جتا رہے ہو
ستمگروں سے زیادہ، ہمدرد رہ کے بھی تم ستا رہے ہو
مثال قائم ہو سکتی ہے سورما کے جیسی پہ شرط ہے کچھ
کٹھن گھڑی رہتے وعدہ احسن طریقے سے گر نبھا رہے ہو

31
فرحت، نشاط ساتھ لئے آئی ہے گھڑی
مل کے چلو مناتے ہیں ہم دیس میں خوشی
کر دے منادی ہر گلی، ہر کُوچہ، ہر مکاں
"آ تُو بھی آ کہ آگئی چھبیس جنوری"
ماحول نغموں، گیتوں سے پُرکیف ہے بنا
جلسے جلوس، نعروں کی آواز ہو چلی

0
50
کیوں خوف زدہ ہو تم حق بات بتانے سے
ڈرتے رہیں گے کب تک آواز اٹھانے سے
سچائی عیاں روزِ روشن کی طرح ہے پر
"تم باز نہیں آتے الزام لگانے سے"
بے غیرتی کے باعث رسوا ہو چلے ہیں ہم
لوٹے گی اصالت پھر غیرت کو جگانے سے

0
68
عمل سے دور رہنا بے مزہ ہے
اُسے عقبٰی میں پانا پھر سزا ہے
مُریدوں پر تصرف کا ہے منشا
"مری محفل مرا خلوت کدہ ہے"
سعی سے نفس کی اصلاح ہوگی
ریاضت پر مراتب کی بقا ہے

0
46
بزم کو یار نے جِلا دی ہے
دردِ دل کی بڑی دوا دی ہے
تجربہ ہم کو درس دیتا ہے
"عشق تاریکیوں کا عادی ہے"
چرچہ ہر سمت اُس کا کیوں نہ چلے
زندگی قوم پر مٹا دی ہے

46
کبھی سامنے کچھ بتائے گی دنیا
پسِ پشت گُل کچھ کھلائے گی دنیا
کرے منہ پہ تعریف، پیچھے برائی
"یہ رنگ اپنا اک دن دکھائے گی دنیا"
سکوں دل بھی پائے، ادا تعزیت بھی
بظاہر تو ماتم رچائے گی دنیا

0
54
چمن میں ہم تبھی فصلِ بہار دیکھیں گے
کہ باغباں کو ہمہ وقت وار دیکھیں گے
جی جان سے کرے گلشن کی وہ نگہبانی
وگرنہ سارے گلستاں میں خار دیکھیں گے
وطن سے دور جو رہتے ہیں، سوچتے ہوں گے
پلٹ کے اپنے وطن کا دیار دیکھیں گے

0
73
خوشیوں کی گھڑی پانے سے سرشار ہوئے ہیں
موسم کے بدل جانے سے مہکار ہوئے ہیں
اک منزِلِ نو کی ہمیں خواہش ہو چلی ہے
"ہم رختِ سفر باندھ کے تیار ہوئے ہیں"
آمد ہی نئے سال کی پُر کیف بڑی ہے
راہوں میں دِئے جلنے سے انوار ہوئے ہیں

0
44
دینی علوم کے ہیں جو ساگر بنے ہوئے
اخلاق کے بھی ہیں وہی پیکر بنے ہوئے
ملت کی پاسداری میں پائی ہو فوقیت
دینِ مبین کے ہیں مفکر بنے ہوئے
افسوس! انقلاب کی تحریک مر چکی
"مدت ہوئی قفس کو مرا گھر بنے ہوئے"

0
50
خدا کے پیمبرؐ سدا گھل رہے تھے
وہؐ عقبہ میں تبلیغ کرتے جٹے تھے
حفاظت کی بیعت میں بازی لگائی
سعادت کو انصارؓ ہی پا چکے تھے
شروعات ہجرت کی خودؐ سے کرائی
ابو بکرؓ ہمراہی انؐ کے بنے تھے

0
56
سعی کریں گے اگر مل کے آشتی کے لئے
مثال ہو سکے قائم یہ پھر صدی کے لئے
ترس رہی ہیں نگاہیں بھی دید کی خاطر
"ہمارے پاس چلے آؤ دو گھڑی کے لئے"
اداس تم کبھی ہرگز صنم نہ ہو جانا
بہار لوٹے گی گلشن میں دلبری کے لئے

0
47
ہاتھوں سے جب کمان اڑا لے گئی ہوا
تیروں کے تب نشان اڑا لے گئی ہوا
گلشن میں خوشگواری رہی عارضی بہت
"پھولوں کی داستان اڑا لے گئی ہوا"
کامل یقیں ہو ایسے میں تو ناخدا پہ بس
کشتی کے بادبان اڑا لے گئی ہوا

0
73
جو زندگی میں رکھتے ہیں کوئی حسی نہیں
تقدیر کے سنورنے میں ان کی چلی نہیں
موقع گنوانے والے نصیحت کو جان لیں
"گویا ابھی نہیں کا ہے مطلب کبھی نہیں"
خالی رہے تھے ہاتھ سکندر کے آخرش
فانی جہاں میں بات کسی کی بنی نہیں

0
59
جرأت کے سامنے یہ طوفان کچھ نہیں
صبر و شکیب ہو تو عُدوان کچھ نہیں
جکڑے ہوں دام گستر کے جب شکنجہ میں
شیرہ ءِ جاں کے درد و ضربان کچھ نہیں
جزباتِ عشق میں بھی مغلوب ہونے سے
جرمِ وفا میں حائل زندان کچھ نہیں

0
39
حرا پر ملا مژدہ آخر الزماںؐ کو
بشارت ہوئی فخرِ کون و مکاںؐ کو
بنیں ہمسفر جبرَئیلِؑ امیں تھے
"تھی حسرت قدم بوسی کی آسماں کو"
ستم کیش سے نرم گفتاری رکھنا
اجاگر نبی کی ہے سیرت جہاں کو

0
54
ملت کے نوجوانوں! محکم وقار تم سے
ایثارِ نفس رکھیو، دار و مدار تم سے
ہیں والدین کے اپنے نور چشم سارے
"گلشنِ بہار تم سے دل کا قرار تم سے"
درکار ہے اُولو العزمی، مستقل مزاجی
عصمت کی پاسداری ہے برقرار تم سے

0
56
انمول موتیوں کو پرویا کریں گے ہم
اقبال مند یا اسے جسیا کریں گے ہم
پروان چڑھنے والی نئی نسل کے لئے
شعبۂِ دینیات کا اِحْیا کریں گے ہم
بر گشتہ اپنے ہی ملے اکثر یہاں ہمیں
"اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم"

0
64
تعلیم یافتہ ہی بیکار آج کل ہے
فکرِ معاش سے وہ بیزار آج کل ہے
پہچان اپنوں غیروں کی ہوگئی ہے مشکل
بغض و عناد سے دل افگار آج کل ہے
تہذیب کے سبق سب ہم نے سکھائے ان کو
کیوں ان کا نامہذب اظہار آج کل ہے

0
51
جِلا بخشی آقاؐ نے کامل مکاں کو
عطا کر دیں سوغاتیں بے خانماں کو
زمیں تا فلک غلبَۂ جلوہ سازی
"تھی حسرت قدم بوسی کی آسماں کو"
بنا مِیر کے قافلہ تھا ادھورا
شہِ انبیاؐ مل گئے کارواں کو

42
نام اس چیز کا محبت ہے
قربتِ یار میں ہی لذت ہے
اپنے دمساز کی ہیں یادیں بس
"خانۂ دل سرا کی صورت ہے"
من کے چلمن میں ایک ہلچل ہے
ہو چلی ہم قدم سے الفت ہے

0
49
ارادہ کِیا میلہ میں اک دن تھا جانے کا
یکایک ہوا غلبہ مگر نیند چھانے کا
بتوں پر چڑھاؤں سے رکھی آپؐ نے دوری
"ذبیحہ نہ کھایا تھا کبھی آستانے کا"
بلا ناغہ ہر رمضان میں شیوہ تھا اُنؐ کا
حرا میں عبادت کر کے من کو لبھانے کا

0
35
نظامِ عقائد بدلا کیسے زمانے کا
ہے حُسنِ اَثر نورِ ہُدیٰؐ جگمگانے کا
خرافات سے رب نے بچایا کرم کر کے
"ذبیحہ نہ کھایا تھا کبھی آستانے کا"
بے بس سہمے سب کفار تھے فتحِ مکہ پر
عجب تر سماں تھا آپؐ کے لوٹ آنے کا

0
50
مسکراہٹ چہرہ پر جب سے عیاں ہونے لگی
دل کدہ کی کیفیت گوہر فشاں ہونے لگی
جزبَۂ الفت میں معتوبِ زماں ہو جائیں گر
"کیا ہوا ہم سے جو دنیا بدگماں ہونے لگی"
گُلشَنِ نا آفریدہ کا تصور خوشنما
الجھنوں کے گام پر آہ و فغاں ہونے لگی

36
خوب اپنے عمل سنوارا کر
قبر کے واسطے اجالا کر
جب غمِ آگہی عیاں ہے ہوا
"دشت و صحرا میں اب پکارا کر"
چارہ گر ہی اگر ستم گر ہو
زخم کا خود ہی کچھ مداوا کر

0
64
بڑی زحمتیں ہیں اٹھائیں پھر بھی زباں پہ شکوہ نہیں رہا
کہیں لعن، طنز و مزاح، معترضہ بھی فقرہ نہیں رہا
بسی آرزو کئی عرصہ سے تھی کہ مطمئن ہو مگر کہاں
جسے جانے دیدنی ہم تھے اس میں ابھی وہ جلوہ نہیں رہا
بے رخی سے بچتے رہیں تو ساحِلِ آشنا ہو سکیں گے پر
یہ خیال خطرہ کی ہے نشانی کہ ہم کو خطرہ نہیں رہا

0
63
ہر کس و ناکس کو رہتا قریہ آبائی پسند
ہے جِبلّی طور پر انسان صوبائی پسند
ہو تخیل میں خلل ہرگز نہ پیدا اس لئے
"ہے دلِ شاعر کو لیکن کنجِ تنہائی پسند"
سوچنے کا طرز یا انداز سب کا ہے جدا
خامشی کچھ چاہیں تو کچھ رہتے شہنائی پسند

0
53