| افسوس اپنے وعدوں سے وہ مکر گیا ہے |
| ناداں کسی کا توڑے نازک جگر گیا ہے |
| یک لخت تیر مژگاں دل سے گزر گیا ہے |
| "ہوتے ہی چار آنکھیں چہرہ نکھر گیا ہے" |
| مشکل جسے تحمل داغ جدائی کا ہو |
| ساگر میں گہرے الفت کے وہ اتر گیا ہے |
| ناسور زخم سارے کافور ہوگئے تب |
| چھوڑے وصال دلبر کی جب خبر گیا ہے |
| مابین ہو سکے گر تالیف قلب ممکن |
| خوف و ہراس کا پھر زور و اثر گیا ہے |
| ماحول کو بنانے جب کاوشیں ہوئی ہیں |
| تب گرد و پیش سے ہر فتنہ، شر گیا ہے |
| حرکت میں رہنے والا اکثر ہی پائے ناصؔر |
| کوشاں رہے قدم تو رہ رو سدھر گیا ہے |
معلومات