خموشی میں چھپا طوفان کا رہتا اشارہ ہے
گماں کچھ اور ابھرا رونما کچھ اور پایا ہے
کرم جس کا زمین و آسماں کے پار چھایا ہے
اسی رحمان کا بے شک ملا ہر دم سہارا ہے
ثبوت عشق ملت کے تئیں اپنا ہو مستحکم
جگر پاروں یہی کچھ دور حاضر کا تقاضہ ہے
عدو تزئین گلشن کا وہی بدبخت کہلائے
تمسخر سے چمن کی جس نے زینت کو اجاڑا ہے
جو بوئے گا وہ پائے گا قیامت میں ثمر بہتر
مبارک ہو جہان عقبی کو اس نے سنوارا ہے
کريں مرنے سے پہلے ہم سبھی مرنے کی تیاری
نہ کر پائیں تو بعد الموت حد افزوں خسارہ ہے
رضائے مولی ﷻ بندے کا مقدر ہو اسی ناصؔر
یہاں جس نے مقدس فرض خدمت کا نبھایا ہے

0
21