زندگی بیت رہی اپنی ہے بے دھیانی میں |
اس پہ ہو توبہ گھڑی گزری جو نادانی میں |
بھٹکے جنت کی ڈگر، مال کی میلانی میں |
عاقبت بھول گئےخواہش نفسانی میں |
خانہ ء دل میں ہو گر جزبہ ء نفرت پیدا |
انتہا کر دے وہ پھر جور کی حیوانی میں |
ہر قدم سوچ سمجھکر ہی اٹھائے ورنہ |
ہر برائی میں الجحھ کر رہے شیطانی میں |
بزم عشرت کی چکاچوند میں رہنا سالم |
ہوش کھونا نہیں اپنے کبھی مستانی میں |
روبرو ہو کبھی جو بر لب طوفاں تو کیا |
پار کرنا ہے مگر کشتی کو طغیانی میں |
رنج و تکلیف سے ہو اس کی حفاظت ناصؔر |
سونپ دیتا ہے کوئی مولی کی نگرانی میں |
معلومات