زندگی بیت رہی اپنی ہے بے دھیانی میں
اس پہ ہو توبہ گھڑی گزری جو نادانی میں
بھٹکے جنت کی ڈگر، مال کی میلانی میں
عاقبت بھول گئےخواہش نفسانی میں
خانہ ء دل میں ہو گر جزبہ ء نفرت پیدا
انتہا کر دے وہ پھر جور کی حیوانی میں
ہر قدم سوچ سمجھکر ہی اٹھائے ورنہ
ہر برائی میں الجحھ کر رہے شیطانی میں
بزم عشرت کی چکاچوند میں رہنا سالم
ہوش کھونا نہیں اپنے کبھی مستانی میں
روبرو ہو کبھی جو بر لب طوفاں تو کیا
پار کرنا ہے مگر کشتی کو طغیانی میں
رنج و تکلیف سے ہو اس کی حفاظت ناصؔر
سونپ دیتا ہے کوئی مولی کی نگرانی میں

0
12