پیسہ رہے تو کرتی یہ دنیا سلام ہے
معیار افتخار بھی املاک و دام ہے
رشوت ستانی، جور و ستم بے لگام ہے
آواز حق اٹھانا بھی ناکارہ و خام ہے
موسیقی، ناچ گانوں کی سجتی ہیں محفلیں
درہم ہوا یہ عیش و طرب سے نظام ہے
مخبوط خرد ہو گئی اسباب لطف میں
ہر اک ہوائے نفس کے آگے غلام ہے
تہذیب اعلی ہے بڑی، تشہیر بھی بڑی
شمشیر فحش گوئی مگر بے نیام ہے
کیف و سرور دیکھئے، احساس تک نہیں
ارزاں لہو ہے، بیش بہا کیسے جام ہے
نفرت کبھی مزاج میں ناصؔر نہ رکھئے گا
الفت کو زندگی میں برتئے پیام ہے

0
7