| اموال کی بہتات ہو رہتی ہے جھکاوٹ |
| اسباب جہاں پانے کی دکھتی ہے جھکاوٹ |
| منصب کی طمع داری میں کیا کچھ نہیں کھویا |
| عہدے بڑے مل جائے ٹپکتی ہے جھکاوٹ |
| بے سود رہے جزبے ہیں بڑپن کے بلا شک |
| رسوائی سہی پھر بھی ابھرتی ہے جھکاوٹ |
| ناموس کی خاطر ہوئے مقروض بلا کے |
| عشرت کے لئے خوب مچلتی ہے جھکاوٹ |
| محفل میں ہوں چرچے، یہی میلان فقط ہے |
| شہرت ملے دنیا میں اچھلتی ہے جھکاوٹ |
| انساں کی ہے فطرت میں ہوس خیزی ازل سے |
| نقد و زری کی نفس میں چلتی ہے جھکاوٹ |
| قابو سے نہ باہر کبھی ناصؔر ہے نکلنا |
| گر سادہ مزاجی ہو، بدلتی ہے جھکاوٹ |
معلومات