گراں تر علم کا زیور رہا ہے
نہ اس جیسا کوئی جوہر رہا ہے
نمایاں صبر کا گوہر رہا ہے
ثمر اس کا بہت بہتر رہا ہے
نہیں ممکن اسے دل سے مٹانا
"محبت کا سبق ازبر رہا ہے"
سدا انسان کے ہے کام آنا
یہی مقصد یہاں اکبر رہا ہے
سبھی روڑے ہٹانا فرض جانا
وہ پھینکا رہ میں جو کنکر رہا ہے
مصیبت پر ہوا ہوں محو عبرت
برا جب سامنے منظر رہا ہے
جو سیدھی راہ اپناتا ہے ناصؔر
نظر میں سب کے وہ برتر رہا ہے

0
7