ماحول پر فتن ہے سنبھلنا ذرا یہاں
ہشیاری خوب اپنی برتنا ذرا یہاں
بیداری کا مظاہرہ کرنا ذرا یہاں
اسباب ناتوانی سے بچنا ذرا یہاں
منظر ہو دل فریب، فضا میں ہو رنگ و بو
بن کے گلاب و لالہ مہکنا ذرا یہاں
ہر آن درد قوم عیاں ہو اداؤں سے
ملت کی نیک خواہی میں جینا ذرا یہاں
فکروں میں انقلابی امنگوں کی ہو جھلک
فرسودہ جو روش ہے بدلنا ذرا یہاں
امواج کے ضرر سے تردد ہو کب تلک
بحر عمیق میں بھی اترنا ذرا یہاں
پایہ کمال چاہئے ناصؔر جہاں میں گر
میدان علم و فن میں نکھرنا ذرا یہاں

0
18