نہ گھبرانا کبھی ہے امتحاں سے
ڈٹے رہنا مگر باد خزاں سے
ارادہ کچھ نرالا ہے جہاں سے
کوئی کہہ دے یہ جا کے آسماں سے
بنی ہے پوری خلقت جس کی خاطر
وہی برتر مکان و لا مکاں سے
کبھی دار فنا میں غم نہ کرنا
تردد میں نہ پڑنا ہے زیاں سے
ہیں منزل گہ سے کوسوں دور لیکن
"خبر پہنچی غبار کارواں سے"
تمدن کی یہی پہچان رہتی
جو ہم آہنگ ہیں رہتے اماں سے
جنہیں ناصؔر ہو تالیف و لیاقت
وہی عبرت پکڑتے ہیں نشاں سے

0
17