| ہے خنداں یہاں سب کو بیدار کر کے |
| ہے شاداں عقیدت کا اظہار کر کے |
| سکوں دل پہ چھایا ہے انوار کر کے |
| شرف خوب پایا ہے ایثار کر کے |
| کٹھن ہے بہت اب خطا کی تلافی |
| "پشیماں ہوئے ہیں وہ انکار کر کے" |
| کھلی بندشیں ہیں پہل سے ہی اکثر |
| سلجھتے مسائل ہیں گفتار کر کے |
| ہوئی ہے ہدایت میں تاخیر لازم |
| مگر روکنا ہوگا اصرار کر کے |
| پنپنے نہ پائے تاسف کی مایہ |
| بڑھائے قدم دل کو سرشار کر کے |
| کرے فوت مقصد خموشی ہے ناصؔر |
| ہو حاصل مسلسل پہ تکرار کر کے |
معلومات