مسند پہ ہوئے آج ہیں اغیار ہی قابض
حق سے ہیں جو بے بہرہ وہ پندار ہی قابض
آسائشی دستور کے افکار ہی قابض
اسباب تعیش کے پرستار ہی قابض
انصاف پسندی کی ہے مفقود روایت
بے عدل و نخوت کے ہیں حقدار ہی قابض
بازار خیانت کی ہوا گرم ہے ہر سو
جو کذب و ریا کے ہیں طرفدار ہی قابض
ملنا ہے کٹھن کوئی جو رہبر ذی لیاقت
بے فہم و فراست کے سزاوار ہی قابض
نادار کی ہے فکر، نہ بے کس پہ نوازش
غم خواری سے جو عاری ہیں بدکار ہی قابض
تہذیبی گراوٹ کی یہ ناصؔر ہے نشانی
بے مایہ ثقافت کے ہیں اقدار ہی قابض

0
11