بے ڈھنگی جب سے چلنے کی رفتار ہو گئی
مطلوب عین کی سعی بیکار ہو گئی
ملت کے پاسداری کی تکرار ہو گئی
جنبش رفاہ قوم کی بیدار ہو گئی
آواز دیتی ہم کو یہ باغ و بہار کیا
حسن عمل سے شاخ ثمردار ہو گئی
رب کی رضا سے قلب کو حاصل ہو روشنی
مثل قمر جبیں بھی چمکدار ہو گئی
گلزار میں نکھار و اثر کاوشوں سے ہو
آرائش چمن سے ہی مہکار ہوگئی
پر عزم نقش پا کی طرف ہو لئے قدم
منزل کی رہ گزر تبھی ہموار ہو گئی
بیع و شرا بھی کرنے پہ ناصؔر لگی لگام
نفرت کی درمیاں کھڑی دیوار ہو گئی

0
15