| ملت کا درد و غم ہے نہ اقدار سے غرض |
| عشرت کے ماروں کو نہ ہے اطوار سے غرض |
| اٹکاتی تصفیہ میں ہے روڑہ یہاں انا |
| "اقرار سے نہ کام نہ انکار سے غرض" |
| قول و عمل میں ربط ہی ناپید ہو چکا |
| سیرت سے واسطہ ہے نہ کردار سے غرض |
| امداد باہمی کی خشونت ہوئی ہے پر |
| مورت عناد کی ہے، نہ للکار سے غرض |
| مطلب پرستی کی چلی گردش ہے آجکل |
| مفلس کا ہے خیال نہ لاچار سے غرض |
| دانائی اپنی کھو چکے تقلید عصر میں |
| معیار سے لگاؤ نہ افکار سے غرض |
| بے ڈھنگی برقرار ہے ناصؔر مگر وہی |
| تدبیر ہے نہ کچھ دل بیمار سے غرض |
معلومات