زخم کہنہ ہرا نہیں ہوتا
حال دل یوں برا نہیں ہوتا
بے سبب گر خفا نہیں ہوتا
کوئی رسوا ہوا نہیں ہوتا
کچھ بہانہ ضرور ہے ورنہ
بے رخی سے ملا نہیں ہوتا
چاہنے والے بانٹتے سکھ دکھ
اپنوں سے کچھ گلہ نہیں ہوتا
بے وفائی رواج پائی ہے
وعدہ اکثر وفا نہیں ہوتا
عین مقصد سے وہ بھٹک جائے
جو نہج سے جڑا نہیں ہوتا
زیست ویراں ہے اس کی تب ناصؔر
خواب دل میں بسا نہیں ہوتا

0
7